Wednesday, 2 July 2014

آئی ایم یو اور کراچی ایئر پورٹ

تنویر آرائیں


دنیا کے تیسرے بڑے شہر کراچی میں واقع انٹرنشنل ایئرپورٹ کو اتوار کی شب دہشتگردوں نے پانچ گھنٹے یرغمال بناۓ رکھا، دس دہشتگرد ٢٥٠٠ سیکیورٹی اہلکاروں سے مقابلہ کر رہے تھے، پانچ گھنٹوں کے طویل مقابلے کے بعد دس دہشتگرد اور سکیورٹی اہلکاروں سمیت ٢٣ لوگوں کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی. جس کی بعد سے میڈیا مسلسل یہی رٹ لگائے جا رہی ہے کی کامیاب آپریشن سے ہم نے دہشتگردوں کا قلع قمع کردیا، میڈیا پر عجیب سے گن گئے جا رہے ہیں عجیب و غریب تجزیے ہو رہے ہیں جن کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر ، قوم کو جھوٹ فیڈ کیا جا رہا ہے اور پاکستانی عوام کے دماغ سے اس آپریشن کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کو غائب کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے، ہاں جی ہاں ! ہم مانتے ہیں کے ای ایس ایف کے اہلکاروں نے بڑی دیدہ دلیری سے دہشتگردوں کا مقابلہ کیا اور قومی اثاثوں کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، رینجرز پولیس اور فوج نے بھی بڑی پھرتی دکھائی، مگر آخر یہ لوگ تھے کون جو دس کی اعداد و شمار میں تھے اور ٢٥٠٠ پر بھاری پڑ رہے تھے اور تقریبا پانچ گھنٹوں تک ہماری سیکورٹی فورسز کو الجھائے رکھا اور ان سے مقابلہ کرتے رہے. رن وے پر کھڑے جہازوں کو بھی نشانہ بنایا ہماری سیکورٹی فورسز کو بھی اور املاک کو بھی اور آخر میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے.
ایئر پورٹ پر  حملہ ہوتا ہے ، دس دہشتگرد اے ایس ایف کی وردیوں میں ملبوس، اے ایس ایف کے کارڈ آویزاں کر کے ایئر پورٹ کے اندر گھس جاتے ہیں، اور باقاعدہ پلاننگ سے اپنے ہدف کی جانب بڑھتے ہیں، ان کے حملے کے طریقے سے لگتا ہے کے ایک ایک چیز کے بارے میں انھیں مکمل معلومات تھی، حملہ ہو گیا، دہشتگرد مارے گئے، آپریشن کامیاب قرار دیا گیا، مگر یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کے ان دہشتگردوں کو اتنی معلومات کہاں سے فراہم ہوئی؟ کوئی بھی اس پر تبصرہ کرنے کو تیار نہیں کے آخر یہ حملہ کس کی ناکامی ہے اور اس کا ذمیوار کون ہیں، کیوں اس ممکنہ حملے کی پیشگی اطلاعات کی باوجود اسے ناکام نہی بنایا گیا؟ انٹیلی جنس اس حملے کی بارے میں پہلے ہی صوبائی گورنمنٹ کو آگاہ کر چکی تھی، کیا یہ انٹیلی جنس ایجنسیز کی ناکامی ہے یا صوبائی گورنمنٹ کی؟ آخر ان سب نقاط پر تبصرہ کیوں نہی ہو رہا؟ تحریک طالبان پاکستان میں گروپ بندی کی اطلاعات موجود تھیں، پھر بھی اتنی غفلت کیوں؟ جب کے وہ لوگ یہ کہہ چکے تھے کے ہم حملے کریں گے، پھر بھی اتنی سستی کیوں؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ کس کامیابی کی رٹ لگاۓ جا رہے ہیں ہم، اگر اس حملے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاۓ تو وہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں ہم نہیں، انہوں نے ساری دنیا پر یہ ظاہر کر دیا کے وہ کہیں بھی کسی بھی جگہ داخل ہو سکتے ہیں، خود سے کئی گنہ زیادہ تعداد سے مقابلہ کر سکتے ہیں، اور آسانی سے اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی پیغام دنیا بھر کو دے دیا کے ہم کتنے کمزور ہیں، ہماری حکومتوں کتنی بے بس اور حکمران کتنے لاچار ہیں.
باغیوں کی یہ ٹولے ساری دنیا میں بکھرے ہوۓ ہیں کہیں یہ بوکو حرام کی نام سے جانے جاتے ہیں کہیں القاعدہ تو کہیں تحریک طالبان، ان کی باغیت پر اگر ہم تبصرہ کریں تو یہ سسٹم سے باغی لوگ ہیں جو کے اپنی اپنی ریاستوں میں شریعت کے نفاذ کی بات کرتے ہیں،لیکن شریعت کوئی بلدیاتی قانون یا اٹھارویں ترمیم نہیں اور مارشل لا بھی نہیں ہے جسے نافذ کیا جا سکے، بندوق کے زور پر یا زبردستی ہم کسی کو منافق تو بنا سکتے ہیں لیکن مومن نہیں ، ان کی نظر میں فرسودہ نظام کا خاتمہ ان کے مشن میں شامل ہے، باغیوں کا اگر ہم تاریخی جائزہ لیں تو معروف محقق و مورخ ڈاکٹر اقبال احمد باغیوں پر تبصرہ کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ "سرمائیدارانہ اور صنعتی دور سے قبل قبیلائی نظام میں جو باغی ہوتے تھے وہ عوام دشمن پالیسیز کے خلاف جدوجہد کرتے تھے اور عوام کو ان پالیسیز سے چھٹکارہ دلاتے تھے، جبکہ دوسرے قبیلے کے حملہ آور ہونے کی صورت میں اپنے قبیلے کی حفاظت کرتے تھے، اپنی عوام کو ان کے شر سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے تھے"، اگر ان باغیوں پر تبصرہ کیا جاۓ تو ان کا مشن اپنی عوام کی فلاح و بہبود، جان و مال کا تحفظ تھا، اپنے لوگوں کی بہتری کی حکمت عملی مراتب کرنا تھا.
اگر ہم اس وقت کے دہشتگرد باغیوں پر تبصرہ کریں تو کچھ انوکھا ہی منظرنامہ سامنے آتا ہے،یہ لوگ تو اپنی ہی عوام کی جان و مال کے دشمن بنے بیٹھے ہیں، اب اگر ہم "آئ ایم یو" یعنی "اسلامک موومنٹ آف ازبکستان" جس نے کراچی ایئر پورٹ پی حملے کی زمیداری قبول کی ہے اس پر تبصرہ کریں تو یہ ایک ایسے موومنٹ ہے جو سوویت یونین کی شکست کے بعد اپنی ہی ریاست کے خلاف کاروایوں میں ملوث رہی ہے اور اگر ہم اس کو القاعدہ کی ذیلی تنظیم کہیں تو بھی کچھ غلط نہی ہو گا اس کی بنیاد ١٩٩١ میں "طاہر یلدوشیف" اور سوویت پیراٹروپر "جمع نمانغنی" نے رکھی تھی، جس کا مقصد ازبکستان کے صدر اسلم کریمو کا تختہ الٹ کر ازبکستان کو اسلامی ریاست بنا کر شریعت کا نفاذ تھا، جبکہ یہ دونوں ازبک ہی تھے. اس تنظیم کو یہ لوگ تاجکستان اور افغانستان میں طالبان کے زیر اثر علاقوں سے چلاتے تھے.٢٠٠١ میں نمانغنی  کی موت کے بعد یلدوشیف اور ان کے کچھ لڑکوں نے طالبان کی مدد سے وزیرستان میں پناہ لے لی کیوں کی افغانستان میں یہ لوگ طالبان کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے، جبکہ وزیرستان منتقلی کے بعد انہوں نے اپنی ٹریننگ کمپس بھی وزیرستان میں بنا لی تھی. شروعاتی دور میں ان کو مالی امداد پاکستانی فرشتوں نے دی تھی.
کراچی ایئر پورٹ پر حملے کا مقصد ان لوگوں نے اپنے ویب بیان میں یہ بتایا  ہے کے یہاں سے ڈروں طیاروں کے فاضل پرزہ جات افغانستان بھیجے جاتے تھے، جبکہ یہ حملہ قبائلی علاقوں پر حالیہ بمباری کا بدلہ بھی ہے.
ای ایم یو کے القاعدہ، افغان طالبان اور تحریک طالبان کے ساتھ مضبوط مراسم ہیں، جبکہ ان کے لشکر جھنگوی کے ساتھ بھی قریبی مراسم ہیں، {لشکر جھنگوی کی بنیاد سپاہ صحابہ پاکستان کے بانی حق نواز جھنگوی کی موت کے بعد ریاض بسرہ نے سپاہ صحابہ کے بزرگ رہنماؤں سے  اختلافات کے بعد ڈالی تھی، اس کا ماننا تھا کے سپاہ صحابہ کے بانی حق نواز جھنگوی کے بعد سپاہ صحابہ ان کے منشور سے پیچھے ہٹ گئی ہے، ایرانی سفیر صادق گنجی پر لاہور میں حملے میں بھی ریاض بسرا ملوث تھا اور اس حملے کے بعد ہے اسے شہرت ملی}.
پاکستان میں کسی اہم مقام پر یہ پہلا حملہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی دہشتگرد کئی اہم مقامات کو نشانہ بنا چکے ہیں، جن میں پی این ایس مہران، کامرہ ایئر بیس، جی ایچ کیو وغیرہ شامل ہیں، ہم نے ان تمام حملوں کے بعد یہ تو بتا دیا کے اس حملے میں کونسی نسل کے دہشتگرد ملوث ہیں، چیچک، ازبک یا افغانی، مگر ہے کوئی ایسا انسان پاکستان میں جو ان سے پوچھ کے یہ غیر ملکی پاکستان میں داخل کیسے ہوتے ہیں؟ ہماری سرحد پر موجود فوجیں کیا کر رہی ہیں یا پاکستانی قوم کے اربوں روپے جن انٹیلی جنس ایجنسیز پر لگ رہے ہیں وہ کیا کر رہی ہیں؟ آخر پاکستانی قوم یہ سوال کیوں نہ اٹھاۓ جو قوم ان کے اخراجات برداشت کرتی ہے کیا اس کو یہ سب پوچھنے کا حق نہیں؟ ان سب سوالات کو چھپانے کے لئے ہم الزامات ایسے دشمنوں پر دھر دیتے ہیں جن کا دور دور تک ان چیزوں سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہوتا، یا شاید ہمارے سیاستدانوں اور اداروں کو اس چیز کا خطرہ ہے کے ان کی ماضی کی غلطیوں کے بھید نہ کھل جائیں.
حضور ! سوال تو اٹھیں گے اور ماضی بھی کریدہ جاۓ گا، کیا اس میں کوئی صداقت نہیں کے ہم نے ہی ان لوگوں کو مضبوط کیا ہے؟ یہ بھی بالکل جھوٹ ہے کے آج بھی ہماری کئی سیاسی جماتیں انہی لوگوں سے انتخابات میں مدد حاصل کرتی ہیں، یا ١٩٩٤ میں ہماری جمہوری حکومت نے ملا عمر کو اسلحہ نہیں فراہم کیا تھا اور اسے افغانستان میں مضبوط نہی کیا تھا.
ہاں ماضی کی غلطیاں بھلائی جا سکتی ہیں مگر اس کے لئے اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے سیاستدان تو آج تک اپنا قبلہ درست کرنے کی سمت بڑھنے کو تیار ہی نہیں، وہ تو اب تک انہی جہادی گروپس کی حمایت حاصل کرکے انتخابات لڑ رہے ہیں، ہمارے ہاں موجود مذہبی جماتیں ان دہشتگردوں کو شہید کہنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتیں، جبکہ ہمارے ادارے آج بھی اپنی توجہ اصل کام سے ہٹا کے کسی اور ہی کام پر لگے ہوئی ہیں، تو اس صورتحال میں ہم کس بہتری کی امید کر سکتے ہیں، ہماری عسکری قیادت اپنی سمت کا تعین کر چکی ہیں، اور یہ واضح کر چکی ہیں کے ہمیں اندرونی خطرات لاحق ہیں، اور اندرونی خطرات ہی حقیقت میں لاحق ہیں، کیوں کے پاکستان میں موجود جہادی گروپس اگر ان بیرونی دہشتگردوں کو مدد نہ فراہم کریں تے یہ اتنی موثر کاروائیاں نہیں کر سکتے، یہاں یہ سوال بھی اٹھانا ضروری ہے کے ایئر پورٹ پر حملے میں کہیں ایئر پورٹ کے عملے میں سے تو کسی نے مدد فراہم نہیں کی، تفتیش کا رخ اس طرف بھی موڑنا ضروری ہے، کیوں کے ہمارے ہاں گھروں میں ہونے والی چوریوں میں گھر میں کام کرنے والے نوکر اور ماسیاں ہی ملوث نکلتی ہیں، جو بیرونی چوروں کو گھر میں موجود چیزوں کے بارے میں آگاہی دیتی ہیں، لہٰذا تفتیش کا رخ ماسیوں کی جانب بھی موڑنا چاہیے.ہندی زبان میں ایک کہاوت مشھور ہے کہ "گھر کا بھیدی لنکا ڈھاہے".

 

 

      

No comments:

Post a Comment