Sunday, 20 July 2014

کیا یہ توہین مذہب نہیں؟

کیا یہ توہین مذہب نہیں؟

تنویر آرائیں


جہاں موقع ملے لوٹ لو، جو چیز ہاتھ لگے روند ڈالو، جو ملے بیچ دو، فکر مت کرنا، پریشان مت ہونا اور گھبرانا تو بالکل نہیں، کوئی نہیں پوچھے گا، احتساب کا تو سوال ہے پیدا نہیں ہوتا.


کیا؟ سوال اٹھیں گے، ابے پاگل! ایسے تو بکری میں اور اضافہ ہوگا. "بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا!".


رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ شروع ہو چکا ہے، یکم رمضان سے ہی ہماری میڈیا اسکرینوں پر یلغار سی نظر آ رہی ہے، افطاری کی کھجور سے لیکر سحری کے دہی تک سب کچھ اسکرینوں پر ہی بک رہا ہے، بیچارے ریڑھی والے منہ تک رہے ہیں کہ بھئی ہم کہاں جائیں. جناب آپ لوگ بھی تکّا لگائیں، ورنہ ایسے ہی گھر کو جائیں، دیکھا نہیں اسکرینوں پر تکّے لگاۓ جا رہیں ہیں.


پاکستانی اشرافیہ فوٹو سیشن کے چکر میں سب بھول بھال جاتی ہے کہ اخلاقیات، احترام، شرم و حیا بھی کوئی چیز ہے، متاثرین میں امداد بانٹنی ہو یا طالب علموں میں لیپ ٹاپ کی تقسیم فوٹو سیشن تو بنتا ہے نا!

ہم اپنے سیاستدانوں کو پتا نہیں کیا کیا کہتے پھرتے ہیں، ایسے فوٹو سیشنز کو لیکر باتوں کا ایسا بتنگڑ بناتے ہیں کہ لیپ ٹاپ یا دی ہوئی امداد بھی شرمانے لگتی ہے، پتا نہیں کہاں کہاں سے نکال نکال کے ایسے جملے کسے جاتے ہیں کہ ایسی صورتحال تو انڈیا پاکستان کے کرکٹ میچ میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی.


حضور، اب جب یہی کام ہماری اسکرینوں پر بیٹھے "گوالیے" کر رہے ہیں تو زبان کو تالے کیوں لگ گئے؟ اب آپ کی لغت کہاں گم ہو گئی؟ اشاروں میں بات کیوں کر رہے ہو؟ نواز شریف، زرداری کا نام تو بڑے فخر سے لیتے ہو اب کیا ہوا، سکتہ کیوں طاری ہو گیا؟


ملک کو لوٹ لیا، ملک کو کھا گئے، عوام کا ستیاناس کر دیا، ملکی معیشیت تباہ کر دی، ایجنٹ، غدار کے بلند و بانگ نعرے لگانے والو اب کہاں سو گئے تم لوگ؟ جب مذھب کو لوٹا جا رہا ہے، دین کو بیچا جا رہا ہے، رمضان کی حرمت کو رسوا کیا جا رہا ہے، عوام کو شکوک و شبہات میں ڈالا جا رہا ہے، فرقوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، قران پاک جیسی بابرکت کتاب کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے، اب آپ کی زبان پر چھالے کیوں پڑ گئے ہیں؟


عقل و فہم گیا اور گوالے آ گئے،  کیوں نہیں بتایا جا رہا کہ ریٹنگ کی بھوک مذہب کو بھی نگلنے کے لیے تیار ہے، یا یہاں بھی منافقت کرو گے کہ جناب 'صدقہ جاریہ' ہے.

میک اپ سے لدے ہوۓ اب عوام کو شریعت بتا رہے ہیں، ذرا یہ تو بتاؤ کہ دین کی تبلیغ کے لئے میک اپ کی ضرورت کیوں آن پڑی، دلیلیں ایسی ایسی کہ بندہ دنگ رہ جاتا ہے کہ یہ کیا مثال ہے. ایک صاحب افطاری کے وقت عقل کو 'کھسرا' (خواجہ سرا) ہونے کی دلیل دے رہے تھے اور فرما رہے کہ جب عقل 'کھسرا' ہوتی ہے تو گناہ ہوتا ہے! کم سے کم میں تو اس دلیل کو بےتکا اور کم عقلی سمجھوں گا!


نام دین کا کام پیٹ کا، بھلا یہ کیسی تبلیغ ہے کہ درود پاک چل رہا ہو اور اچانک دھڑام سے شربت کا اشتہار چلنا شروع ہو جاۓ، ملک میں لاتعداد 'فتویٰ فیکٹریاں' ہیں، کوئی بھی مسئلہ ہو آپ  آسانی سے فتویٰ حاصل کر سکتے ہیں، جیو پر مارننگ شو میں  ایک قوالی پر توہین کا فتویٰ صادر کرنے والے اب کہاں گم ہو گئے؟


کیا دکھائی نہیں دے رہا کس طرح اسکرین پر میک اپ سے لدھے ھوۓ گوالیے دین کی توہین کر رہے ہیں؟ درود پاک کو کاٹ کر شربت کا اشتہار توہین مذہب نہیں؟


جناب دین تو ہمیں سکھاتا ہے کہ خیرات ایسے کرو کہ دوسرے ہاتھ کو بھی  پتا نہ چلے، یہاں کیا ہو رہا ہے خیرات کے  نام پر، محض دکھاوا!


کرتے بیچنے والے اب دین کو بیچنے میں مصروف ہیں، جس طرح کرتے بیچتے ہوئے ایمانداری، سچائی اور قیمت پر گاہک سے غیر اخلاقی مکالمہ کیا جاتا ہے اسی طرح اب یہ لوگ دین کو بیچتے ہوئے اخلاقیات، احترام، رواداری کو بالاۓ طاق رکھ چکے ہیں، ڈسکو قسم کے گوالئے عوام کے جذبات کو ابھارنے کے لئے ہر قسم کی ڈگڈگی بجانے کو تیار ہیں، اپنی اس کوشش کے لئے قران و حدیث کی حرمت کو بھی رسوا کیا جا رہا ہے، کیا دکان داری چمکانے کے لئے دین کا استعمال توہین مذہب نہیں؟


کون بتاۓ گا، کون سنے گا، کس کی ذمّہ داری ہے کہ دین کو بیچنے اور اس کا ناجائز استعمال ہونے سے روکے؟ دین کی حرمت کو بچانا کس کی ذمّہ داری ہے، حکومتی نمائندگی کے لئے تو آئین کا آرٹیکل 62,63 موجود ہے، ان گوالیوں کے لئے سرحدوں کا تعین کون کرے گا.


جعلی ڈگری والے بھائی صاحب عجیب و غریب ڈرامے کر رہے ہیں، مفتی صاحبان کو بلا کر اور سوالات کے جوابات کے حصول کے نام پر پتا نہیں کیا کیا کر رہے ہیں، سیدھی سی بات ہے، دومختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے ایک  دوسرے سے کیسے متفق ہوں گے حضور!؟  اس سے پہلے بھی ان حضرت کے 7 ستمبر 2008 کے پروگرام کے بعد ایک فرقے کے دو افراد کو قتل کردیا گیا تھا۔ اس دفعہ پتا نہیں ان کی یہ نئی خرافات کیا رنگ لائی گی.


ایک مسلمان دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہا ہے ایسے ماحول میں اس کو طول دینا فرقہ واریت کی آگ کو مزید بھڑکانا، جلتی پر تیل چھڑکنے جیسا نہیں ہو گا؟ مگر انہیں کیا، لوگ مرتے ہیں تو مریں، کٹتے ہیں تو کٹیں، لڑتے ہیں تو لڑیں، ان کا دھندا تو ترقی کر رہا ہے نا، بس تو پھر کیا!
یہ لوگ تو موچی اور درزی سے بھی گئے گزرے ہیں وہ تو گانٹھنے کا کام اچھائی کے لئے کرتے ہیں یعنی دھندے میں بھی سلیقہ، جبکہ یہ لوگ دھندے میں بھی بی ایمانی. ذرا یو ٹیوب پر ان حضرت کی ویڈیو ملاحضہ فرما لیں سب سمجھ میں آ جاۓ گا. لڑکیوں کے ہاسٹل میں چھپنے والے کی حقیقت آپ سے چند بٹن کی دوری پر ہے. دیویاں اور دیوتا بنانے سے قبل ذرا انگلیوں کو حرکت دے کر دیکھ لیں.


بھوک کا مارا بچّھ تو سیٹی کی آواز پر بھی چپ کر جاتا ہے بھلے دودھ کی بوتل گھنٹے بعد ملے، بھوک و افلاس اور بیروزگاری کے ہتھے چڑھی ہوئی عوام کے لئے لگایا جانا والا آپ کا تماشا بھی توجہ کیوں کر حاصل نہ کرے.


ہم قدیم روم کے بادشاہوں کو ظالم و وحشی لکھتے ہیں کیوں کہ وہ گلیڈی ایٹر کا کھیل کرواتے تھے، عوام اس کو دیکھ کر بھوک بھول جاتی تھی، لیکن آپ تو ان سے بھی نمبر لے گے! آپ نے تو اپنے دھندے کی خاطر دین کو ہی صابن، تیل، ٹوتھ پيسٹ کے ساتھ بیچنا شروع کردیا!! کہاں ہیں غیرت والے!!؟؟


اور کہاں ہے پیمرا؟ ویسے تو ذرا ذرا سی بات پر 'نوٹس' لے لیا جاتا ہے، اب کیوں سانپ سونگھ گیا؟ زیادہ سے زیادہ منافعے کے لئے ان 'فار پرافٹ' تفریحی اور نیوز چینلوں پر مذہب کے اس بےشرمی سے استحصال کا نوٹس کیوں نہیں لیا جا رہا آخر؟

حالیہ چند مہینوں میں تو خاص طور پر یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جب تک تفریحی ٹی وی چینلوں پر مذہبی پروگرامنگ ہوگی، اس کا فائدہ اٹھا کر شر پسند عناصر اپنے ذاتی اور پیشہ ورانہ فائدوں کے لئے بات کا بتنگڑ بنا کر ہماری 'جذباتی' عوام کے جذبات مشتعل کرتے رہیں گے. جیسا کہ جیو، اے آر وائی اور سما کے ساتھ ہوا.


پاکستانی قانون بھی عجیب قسم کی چیز ہے، یہاں فوج و قومی سلامتی کے معاملات پر تو چینل بند ہو جاتا ہے لیکن دین کو دھندے کے لئے استعمال کرنے پر کوئی روک ٹوک نہیں. پیمرا کو چاہیے کہ تمام نیوز و انٹرٹینمنٹ چینلز پر دھندے کی غرض سے کیے جانے والے مذہبی پروگرامز پر مکمّل پابندی عائد کرے، کیوں کہ موجودہ پروگرامز سے دین کو سمجھنے اور سیکھنے کے بجاۓ انتشار پھیل رہا ہے.


دین کمائی کے لئے نہیں بنا! براۓ خدا ان فار-پرافٹ 'تفریحی چینلوں' پر مذہب کا کاروبار بند کروائیں! دین کی بات کرنی ہے تو اس کے لئے مخصوص نان-پرافٹ چینلز ہونے چاہئیں، جہاں کسی قسم کی اشتہار بازی کی قطعی اجازت نہیں ہونی چاہیے.


ساتھ ساتھ، ایڈورٹائیزرز پر بھی سخت پابندی ہونی چاہیے کہ اپنی پروڈکٹس بیچنے کے لئے بناۓ جانے والے اشتہاروں میں مذہبی علامتوں اور استعاروں سے قطعی گریز کریں.    


میں نے تو سوچا تھا کہ امیر المومنین مولانا ضیاء الحق نے دین کی جو خدمت فرمائی ہے اس کے بعد تو کوئی دین بیچ ہی نہیں سکتا لیکن افسوس کہ میں غلط ثابت ہوا، دین کے ساتھ نام نہاد آزاد میڈیا کا کھلواڑ دیکھ کر تو وہ بھی شرما جاتا.


عوام کے لئے ایک شعرعرض ہے؛



دستار کے ہر تار کی تحقیق ہے لازم
ہر صاحب دستار معزز نہیں  ہوتا



"یہ بلاگ 15جولائی 2014 کو ڈان اردو پر شایع ہو چکا ہے "

Monday, 7 July 2014

پاکستانی رمضان





دنیا کے تمام ملکوں میں مذہبی تہوار بڑے جوش و جذبے سے مناۓ جاتے ہیں. خوب عبادات ہوتی ہیں.
ہندو مذہب میں "نوراتری" بڑے جذبے سے منائی جاتی ہے اس تہوار کے موقعے پر ہندو مذہب کے لوگ روزے رکھتے ہیں، پرشاد بانٹتے ہیں، دکانوں اور بازاروں میں اشیاۓ خورد و نوش کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی دیکھنے کو ملتی ہے. دیگر اشیاۓ ضروریات مثَلاً کپڑا، جوتے وغیرہ کی قیمتوں میں بھی اچھی خاصی کمی دیکھنے کو ملتی ہے، اور لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم منافعے پر اشیاۓ ضروریات فروخت کریں، تاکہ وہ اپنا مذہبی فریضہ بھی پورا کرے اور معاشرتی بھی.
بالکل اسی طرح کرسمس، ایسٹر، ہولی، دیوالی یا دیگر مذہبی تہواروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ شاپنگ سینٹرز یا عام بازاروں میں قیمتیں بالکل نیچے اتر آتی ہیں، خصوصی مارکیٹس لگتی ہیں جن میں کم قیمت اشیاۓ ضروریات رکھی جاتی ہیں، ایسی مارکیٹیں حکومت کی طرف سے بھی لگائی جاتی ہیں، جبکہ نجی کمپنیاں بھی اسے اپنا مذہبی و معاشرتی فریضہ سمجھتی ہیں.
دنیا میں پائے جانے والے مسلمان ملکوں میں بھی مذہبی تہواروں کے دوران جوش و خروش پایا جاتا ہے خصوصا رمضان میں تمام مسلمان یا غیر مسلمان ملکوں میں اشیاۓ خورد و نوش و ضروریات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی نظر آتی ہے. غیر مسلمان ملکوں میں جہاں بھی مسلم آبادی کثیر تعداد میں پائی جاتی ہے وہاں رمضان میں قیمتیں انتہائی نیچے آ جاتی ہیں.
نئے سال کی آمد پر آسٹریلیا میں لوگ اپنا ساز و سامان تبدیل کرتے ہیں، پرانا سامان گھرکے باہر فٹ پاتھ پر رکھ دیا جاتا ہے تا کہ کوئی بھی ضرورت مند اسے اپنے استعمال میں لا سکے، کئی ضرورت مند اس عمل سے مستفید بھی ہوتے ہیں، جبکہ اس عمل سے کسی کو احساس کمتری بھی نہیں ہوتا، یہاں تو دس روپے کی نیاز بھی کم سے کم دس لوگوں کے علم میں لا کر تقسیم کی جاتی ہے.
رمضان گو کہ ساری مسلم دنیا میں اسلامی ٹریننگ کا مہینہ گردانا جاتا ہے جس میں اسلامی فریضے، اسلامی تعلیمات میں خود کو ڈھالنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور یہ ٹریننگ کی جاتی ہے کہ سال کے بارہ مہینے یہی روایات اپنائی جایئں.
اس مہینے میں ٹریننگ کی جاتی ہے کہ نماز کی پابندی کو اپنایا جاۓ، زکوات، صدقہ و خیرات دی جایئں، اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جاۓ. صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جاۓ، برداشت کا مادہ پیدا کیا جاۓ عدم برداشت کو ترک کیا جاۓ. رواداری، کینہ شکنی، جھوٹ سے پرہیز، صلہ رحمی، وغیرہ کی خاص تربیت کو اپنانے کا درس دیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ سب گن اپنا کے اللہ رب العزت کی بے شمار نعمتیں و رحمتیں لوٹنے کا موقع ملتا ہے جس سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاتا ہے.
نماز و تراویح کے ذریعے اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنے کا بھرپور موقع ملتا ہے. روزہ کی بھوک برداشت کر کے خود کو قابل برداشت بنانے کا موقع بھی اسی ماہ بابرکت میں ملتا ہے.
ساری دنیا میں جہاں بھی مسلمان بستے ہیں اس ماہ میں مذہبی تربیت حاصل کرتے ہیں اور جتنا ہو سکے خود کو گناہوں سے دور رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں.
پوری دنیا کے نقشے پر فقط پاکستان ایسا ملک ہے جس میں رمضان کا بڑی بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے، اور یہ مہینہ شروع ہوتے ہی رمضانی مینڈک باھر آ جاتے ہیں اور لوٹ مار کا بازار گرم کر دیتے ہیں، باقی دنیا میں بھی اس مہینے میں لوٹ مار ہوتی ہے لیکن وہ مسلمان رحمتیں لوٹتے ہیں ہم مسلمانوں کو لوٹتے ہیں، ساری دنیا میں اشیاۓ ضروریات کی قیمتیں کم سے کم تر ہو جاتی ہیں جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں رمضان کریم کا مہینہ شروع ہوتے ہی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں، زخیرہ اندوز مافیا سر اٹھا کے نکل آتی ہے اور خوب لوٹ مار کا بازار گرم کرتی ہے، اس ماہ بابرکت میں پاکستان کے ہر دکاندار، ریڑھی والے، چھابڑی والے، دھوبی، درزی یہاں تک کے گداگر بھی لوٹ مار میں مشغول ہو جاتے ہیں، جس کو جتنا موقع ملتا ہے لوٹتا ہے، کیوں کہ ان کو پتا ہے کہ یہ دن سال بعد آنے ہیں.
ہوس نے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے، گداگر بھی رمضان میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے وہ بھی اپنی بستیوں سے نکل کر بڑے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں، پاکستان میں تو انٹرنیشنل گداگر بھی پاۓ جاتے ہیں جو رمضان میں بیرون ممالک کا رخ کرتے ہیں خاص طور پر مڈل ایسٹ کے ممالک میں ان کی خاصی تعداد جاتی ہے کوئی عمرے کا ویزا لے کر تو کوئی زیارتوں کا اور وہاں جا کے خوب کماتے ہیں، ہم لوگوں نے تو رمضان کو بھی ذریعہ معاش بنا لیا ہے.
پاکستان میں تو رمضان کو بھی بیچا جاتا ہے، سحری سے لیکر افطاری تک فجر سے لیکر تراویح تک، ہر چیز کو بیچا جاتا ہے، مداری قسم کے لوگ جنہیں "رمضانی مینڈک" بھی کہا جا سکتا ہے اسکرینوں پر براجمان ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کو تکا لگانے کی تلقین کرتے ہوے نظر آتے ہیں.
موبائل فون اور ڈنر سیٹ تو بہت بڑی چیز ہے یہاں تو بریانی کی پلیٹ پر بھی ہجوم لگ جاتا ہے، تیس دن کی ہر ایک چیز کو کمرشل بنا دیا جاتا ہے، ہم ایسی قوم ہیں جو مذہب کو بھی بیچ دیتے ہیں کیوں کے ہم جانتے ہیں کہ دو چیزوں پر ہی دنیا میں لوٹ مار مچی ہوئی ہے؛ ایک مذہب اور دوسرا وطن.
ہم دونوں کو خوب بیچتے ہیں، رسوا کرتے ہیں، کیوں کہ بیچتا تو وہ نہیں ہے جس کا ایمان ہو، ہم نے تو سب سے پہلی واردات اپنے ایمان کو بیچ کر ڈالی ہے، مسجدوں سے لیکر فرقوں تک ہر چیز کو بیچنے کا ہم لوگ ریکارڈ رکھتے ہیں، ہم نے کبھی دین کو اپنے پیٹ پالنے کے لئے بیچا کبھی دوسرے کا پیٹ کاٹنے کے لئے بیچا.
اسکرینوں پر جلوہ گر ہونے والے اپنی دکان کو چمکانے کے چکر میں اخلاقیات وغیرہ سب بھول جاتے ہیں، کہیں بچہ گفٹ کر کے دین کو رسوا کیا جاتا ہے تو کہیں فرج اور واٹر کولر کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کو خدا نے اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا اسے ان جیسے مداری کیا نواز سکتے ہیں، بے شک، میرا رب بہتر فیصلے کرنے والا ہے، یہ لوگ اس مداری کھیل سے کوئی ثواب نہیں کما رہے بلکہ اپنے پیٹ پالنے لے لئے ایسے شرمناک کھیل کر رہے ہیں.
رمضان میں سحری اور افطاری کے دو وقت میں جرائم کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جرائم پیشہ عناصر اس وقت کا تعین اس لئے کرتے ہیں کیوں کہ اس وقت روزے دار اپنے کام میں مصروف ہوتے ہیں. اس ماہ بابرکت میں ہم لوگ سحری اور افطاری کے وقت کا بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، اور بھلا جرائم پیشہ افراد فائدہ کیوں نہ اٹھائیں جب سب طبقات اپنے اپنے دھندے کو اس ماہ میں چمکانے میں لگے ہوئے ہیں اور سب کی چاندی ہے تو یہ کیوں کر پیچھے رہیں.
پاکستان میں کم و بیش ہر بندہ رمضان میں واردات ڈالنے کے مواقع تلاش کرتا نظر آتا ہے اربوں سے لیکر سیکڑوں تک کے وارداتیے پاکستان میں اس ماہ میں کثیر تعداد میں پاۓ جاتے ہیں، سستے بازاروں کے نام پر واردات، یوٹیلیٹی اسٹورز کے نام پر واردات، سبسڈی کے نام پر واردات، تبلیغ کے نام پر واردات اور پھر رویا جاتا ہے کہ برکت نہیں.
ہمارے ہاں تو روزہ رکھنے والے افراد بھی عجیب واردات کرتے ہیں، جو شخص روزہ رکھتا ہے وہ دوسروں پر دھونس جماتا ہے، خاص طور پر سرکاری ملازمین کا رویہ دیکھنے جیسا ہوتا ہے جو خود کو روزے دار ثابت کرنے کے انیک حربے استعمال کرتا ہے. روزے کی بنیادی تعلیم 'برداشت' کو تو ایسے خوبصورت انداز سے نبھاتے ہیں کے اس کی تو نظیر نہیں ملتی، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے روزہ رکھ کر کسی پر احسان کیا جا رہا ہے.
اس ماہ میں حکومتیں خصوصی سبسڈی دیتی ہے اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے خصوصی کمیٹیاں بنائی جاتیں ہیں جو قیمتوں پر نظر رکھتی ہیں، یہاں بھی ایسے کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں، لیکن وہ بھی اپنا اصل کام چھوڑ کے واردات کرنے کے درپے ہوتی ہیں، کہیں واردات ہو تو ان کو بھی واردات کا موقع ملے.
باقی سب باتیں تو چھوڑو میاں صاحب آپ صرف آلو کی قیمت پر ہی ضابطہ لے آئیں، آپ کے وزیر صاحب نے تیس روپے فی کلو کی بات کی تھی وہی قیمت مقرر کروادیں آپ کی پاکستان کی "وارداتیاتی" قوم پر وارداتی مہربانی ہو گی. لیکن مجھے پتا ہیں یہ حسین واردات حکومت کے بس کی بات نہیں کیوں کہ وہ تو کسی اور ہی واردات کے چکر میں ہیں.

Wednesday, 2 July 2014

آئی ایم یو اور کراچی ایئر پورٹ

تنویر آرائیں


دنیا کے تیسرے بڑے شہر کراچی میں واقع انٹرنشنل ایئرپورٹ کو اتوار کی شب دہشتگردوں نے پانچ گھنٹے یرغمال بناۓ رکھا، دس دہشتگرد ٢٥٠٠ سیکیورٹی اہلکاروں سے مقابلہ کر رہے تھے، پانچ گھنٹوں کے طویل مقابلے کے بعد دس دہشتگرد اور سکیورٹی اہلکاروں سمیت ٢٣ لوگوں کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی. جس کی بعد سے میڈیا مسلسل یہی رٹ لگائے جا رہی ہے کی کامیاب آپریشن سے ہم نے دہشتگردوں کا قلع قمع کردیا، میڈیا پر عجیب سے گن گئے جا رہے ہیں عجیب و غریب تجزیے ہو رہے ہیں جن کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر ، قوم کو جھوٹ فیڈ کیا جا رہا ہے اور پاکستانی عوام کے دماغ سے اس آپریشن کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کو غائب کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے، ہاں جی ہاں ! ہم مانتے ہیں کے ای ایس ایف کے اہلکاروں نے بڑی دیدہ دلیری سے دہشتگردوں کا مقابلہ کیا اور قومی اثاثوں کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، رینجرز پولیس اور فوج نے بھی بڑی پھرتی دکھائی، مگر آخر یہ لوگ تھے کون جو دس کی اعداد و شمار میں تھے اور ٢٥٠٠ پر بھاری پڑ رہے تھے اور تقریبا پانچ گھنٹوں تک ہماری سیکورٹی فورسز کو الجھائے رکھا اور ان سے مقابلہ کرتے رہے. رن وے پر کھڑے جہازوں کو بھی نشانہ بنایا ہماری سیکورٹی فورسز کو بھی اور املاک کو بھی اور آخر میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے.
ایئر پورٹ پر  حملہ ہوتا ہے ، دس دہشتگرد اے ایس ایف کی وردیوں میں ملبوس، اے ایس ایف کے کارڈ آویزاں کر کے ایئر پورٹ کے اندر گھس جاتے ہیں، اور باقاعدہ پلاننگ سے اپنے ہدف کی جانب بڑھتے ہیں، ان کے حملے کے طریقے سے لگتا ہے کے ایک ایک چیز کے بارے میں انھیں مکمل معلومات تھی، حملہ ہو گیا، دہشتگرد مارے گئے، آپریشن کامیاب قرار دیا گیا، مگر یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کے ان دہشتگردوں کو اتنی معلومات کہاں سے فراہم ہوئی؟ کوئی بھی اس پر تبصرہ کرنے کو تیار نہیں کے آخر یہ حملہ کس کی ناکامی ہے اور اس کا ذمیوار کون ہیں، کیوں اس ممکنہ حملے کی پیشگی اطلاعات کی باوجود اسے ناکام نہی بنایا گیا؟ انٹیلی جنس اس حملے کی بارے میں پہلے ہی صوبائی گورنمنٹ کو آگاہ کر چکی تھی، کیا یہ انٹیلی جنس ایجنسیز کی ناکامی ہے یا صوبائی گورنمنٹ کی؟ آخر ان سب نقاط پر تبصرہ کیوں نہی ہو رہا؟ تحریک طالبان پاکستان میں گروپ بندی کی اطلاعات موجود تھیں، پھر بھی اتنی غفلت کیوں؟ جب کے وہ لوگ یہ کہہ چکے تھے کے ہم حملے کریں گے، پھر بھی اتنی سستی کیوں؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ کس کامیابی کی رٹ لگاۓ جا رہے ہیں ہم، اگر اس حملے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاۓ تو وہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں ہم نہیں، انہوں نے ساری دنیا پر یہ ظاہر کر دیا کے وہ کہیں بھی کسی بھی جگہ داخل ہو سکتے ہیں، خود سے کئی گنہ زیادہ تعداد سے مقابلہ کر سکتے ہیں، اور آسانی سے اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی پیغام دنیا بھر کو دے دیا کے ہم کتنے کمزور ہیں، ہماری حکومتوں کتنی بے بس اور حکمران کتنے لاچار ہیں.
باغیوں کی یہ ٹولے ساری دنیا میں بکھرے ہوۓ ہیں کہیں یہ بوکو حرام کی نام سے جانے جاتے ہیں کہیں القاعدہ تو کہیں تحریک طالبان، ان کی باغیت پر اگر ہم تبصرہ کریں تو یہ سسٹم سے باغی لوگ ہیں جو کے اپنی اپنی ریاستوں میں شریعت کے نفاذ کی بات کرتے ہیں،لیکن شریعت کوئی بلدیاتی قانون یا اٹھارویں ترمیم نہیں اور مارشل لا بھی نہیں ہے جسے نافذ کیا جا سکے، بندوق کے زور پر یا زبردستی ہم کسی کو منافق تو بنا سکتے ہیں لیکن مومن نہیں ، ان کی نظر میں فرسودہ نظام کا خاتمہ ان کے مشن میں شامل ہے، باغیوں کا اگر ہم تاریخی جائزہ لیں تو معروف محقق و مورخ ڈاکٹر اقبال احمد باغیوں پر تبصرہ کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ "سرمائیدارانہ اور صنعتی دور سے قبل قبیلائی نظام میں جو باغی ہوتے تھے وہ عوام دشمن پالیسیز کے خلاف جدوجہد کرتے تھے اور عوام کو ان پالیسیز سے چھٹکارہ دلاتے تھے، جبکہ دوسرے قبیلے کے حملہ آور ہونے کی صورت میں اپنے قبیلے کی حفاظت کرتے تھے، اپنی عوام کو ان کے شر سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے تھے"، اگر ان باغیوں پر تبصرہ کیا جاۓ تو ان کا مشن اپنی عوام کی فلاح و بہبود، جان و مال کا تحفظ تھا، اپنے لوگوں کی بہتری کی حکمت عملی مراتب کرنا تھا.
اگر ہم اس وقت کے دہشتگرد باغیوں پر تبصرہ کریں تو کچھ انوکھا ہی منظرنامہ سامنے آتا ہے،یہ لوگ تو اپنی ہی عوام کی جان و مال کے دشمن بنے بیٹھے ہیں، اب اگر ہم "آئ ایم یو" یعنی "اسلامک موومنٹ آف ازبکستان" جس نے کراچی ایئر پورٹ پی حملے کی زمیداری قبول کی ہے اس پر تبصرہ کریں تو یہ ایک ایسے موومنٹ ہے جو سوویت یونین کی شکست کے بعد اپنی ہی ریاست کے خلاف کاروایوں میں ملوث رہی ہے اور اگر ہم اس کو القاعدہ کی ذیلی تنظیم کہیں تو بھی کچھ غلط نہی ہو گا اس کی بنیاد ١٩٩١ میں "طاہر یلدوشیف" اور سوویت پیراٹروپر "جمع نمانغنی" نے رکھی تھی، جس کا مقصد ازبکستان کے صدر اسلم کریمو کا تختہ الٹ کر ازبکستان کو اسلامی ریاست بنا کر شریعت کا نفاذ تھا، جبکہ یہ دونوں ازبک ہی تھے. اس تنظیم کو یہ لوگ تاجکستان اور افغانستان میں طالبان کے زیر اثر علاقوں سے چلاتے تھے.٢٠٠١ میں نمانغنی  کی موت کے بعد یلدوشیف اور ان کے کچھ لڑکوں نے طالبان کی مدد سے وزیرستان میں پناہ لے لی کیوں کی افغانستان میں یہ لوگ طالبان کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے، جبکہ وزیرستان منتقلی کے بعد انہوں نے اپنی ٹریننگ کمپس بھی وزیرستان میں بنا لی تھی. شروعاتی دور میں ان کو مالی امداد پاکستانی فرشتوں نے دی تھی.
کراچی ایئر پورٹ پر حملے کا مقصد ان لوگوں نے اپنے ویب بیان میں یہ بتایا  ہے کے یہاں سے ڈروں طیاروں کے فاضل پرزہ جات افغانستان بھیجے جاتے تھے، جبکہ یہ حملہ قبائلی علاقوں پر حالیہ بمباری کا بدلہ بھی ہے.
ای ایم یو کے القاعدہ، افغان طالبان اور تحریک طالبان کے ساتھ مضبوط مراسم ہیں، جبکہ ان کے لشکر جھنگوی کے ساتھ بھی قریبی مراسم ہیں، {لشکر جھنگوی کی بنیاد سپاہ صحابہ پاکستان کے بانی حق نواز جھنگوی کی موت کے بعد ریاض بسرہ نے سپاہ صحابہ کے بزرگ رہنماؤں سے  اختلافات کے بعد ڈالی تھی، اس کا ماننا تھا کے سپاہ صحابہ کے بانی حق نواز جھنگوی کے بعد سپاہ صحابہ ان کے منشور سے پیچھے ہٹ گئی ہے، ایرانی سفیر صادق گنجی پر لاہور میں حملے میں بھی ریاض بسرا ملوث تھا اور اس حملے کے بعد ہے اسے شہرت ملی}.
پاکستان میں کسی اہم مقام پر یہ پہلا حملہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی دہشتگرد کئی اہم مقامات کو نشانہ بنا چکے ہیں، جن میں پی این ایس مہران، کامرہ ایئر بیس، جی ایچ کیو وغیرہ شامل ہیں، ہم نے ان تمام حملوں کے بعد یہ تو بتا دیا کے اس حملے میں کونسی نسل کے دہشتگرد ملوث ہیں، چیچک، ازبک یا افغانی، مگر ہے کوئی ایسا انسان پاکستان میں جو ان سے پوچھ کے یہ غیر ملکی پاکستان میں داخل کیسے ہوتے ہیں؟ ہماری سرحد پر موجود فوجیں کیا کر رہی ہیں یا پاکستانی قوم کے اربوں روپے جن انٹیلی جنس ایجنسیز پر لگ رہے ہیں وہ کیا کر رہی ہیں؟ آخر پاکستانی قوم یہ سوال کیوں نہ اٹھاۓ جو قوم ان کے اخراجات برداشت کرتی ہے کیا اس کو یہ سب پوچھنے کا حق نہیں؟ ان سب سوالات کو چھپانے کے لئے ہم الزامات ایسے دشمنوں پر دھر دیتے ہیں جن کا دور دور تک ان چیزوں سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہوتا، یا شاید ہمارے سیاستدانوں اور اداروں کو اس چیز کا خطرہ ہے کے ان کی ماضی کی غلطیوں کے بھید نہ کھل جائیں.
حضور ! سوال تو اٹھیں گے اور ماضی بھی کریدہ جاۓ گا، کیا اس میں کوئی صداقت نہیں کے ہم نے ہی ان لوگوں کو مضبوط کیا ہے؟ یہ بھی بالکل جھوٹ ہے کے آج بھی ہماری کئی سیاسی جماتیں انہی لوگوں سے انتخابات میں مدد حاصل کرتی ہیں، یا ١٩٩٤ میں ہماری جمہوری حکومت نے ملا عمر کو اسلحہ نہیں فراہم کیا تھا اور اسے افغانستان میں مضبوط نہی کیا تھا.
ہاں ماضی کی غلطیاں بھلائی جا سکتی ہیں مگر اس کے لئے اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے سیاستدان تو آج تک اپنا قبلہ درست کرنے کی سمت بڑھنے کو تیار ہی نہیں، وہ تو اب تک انہی جہادی گروپس کی حمایت حاصل کرکے انتخابات لڑ رہے ہیں، ہمارے ہاں موجود مذہبی جماتیں ان دہشتگردوں کو شہید کہنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتیں، جبکہ ہمارے ادارے آج بھی اپنی توجہ اصل کام سے ہٹا کے کسی اور ہی کام پر لگے ہوئی ہیں، تو اس صورتحال میں ہم کس بہتری کی امید کر سکتے ہیں، ہماری عسکری قیادت اپنی سمت کا تعین کر چکی ہیں، اور یہ واضح کر چکی ہیں کے ہمیں اندرونی خطرات لاحق ہیں، اور اندرونی خطرات ہی حقیقت میں لاحق ہیں، کیوں کے پاکستان میں موجود جہادی گروپس اگر ان بیرونی دہشتگردوں کو مدد نہ فراہم کریں تے یہ اتنی موثر کاروائیاں نہیں کر سکتے، یہاں یہ سوال بھی اٹھانا ضروری ہے کے ایئر پورٹ پر حملے میں کہیں ایئر پورٹ کے عملے میں سے تو کسی نے مدد فراہم نہیں کی، تفتیش کا رخ اس طرف بھی موڑنا ضروری ہے، کیوں کے ہمارے ہاں گھروں میں ہونے والی چوریوں میں گھر میں کام کرنے والے نوکر اور ماسیاں ہی ملوث نکلتی ہیں، جو بیرونی چوروں کو گھر میں موجود چیزوں کے بارے میں آگاہی دیتی ہیں، لہٰذا تفتیش کا رخ ماسیوں کی جانب بھی موڑنا چاہیے.ہندی زبان میں ایک کہاوت مشھور ہے کہ "گھر کا بھیدی لنکا ڈھاہے".