Sunday, 19 October 2014

کیا پیپلز پارٹی سکڑ رہی ہے؟

کیا پیپلز پارٹی سکڑ رہی ہے؟
تنویر آرائیں

ضیاء الحق کے مارشل لا لگانے اور ذوالفقارعلی بھٹو کے احمد رضا قصوری پر مبینہ قاتلانہ حملے (جس میں وہ بچ گئے اور ان کے والد ہلاک ہوئے) کے مقدمے میں گرفتار ہونے کے بعد سے وقتاً فوقتاً یہ سوال ملک کے دانشوراور سیاسی حلقوں میں گردش کرتا رہتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی سکڑ رہی ہے؟ لاتعداد بار پیپلز پارٹی کے خاتمے کی سرگوشیاں سننے میں آتی رہی ہیں۔ اس سوال کا جواب عموماً ہاں میں نکلتا ہے، اور سرگوشیوں پر بھی سنجیدگی دیکھنے میں آتی ہے۔ مگر وقت آنے پر حقائق ہمیشہ یکسر مختلف رہے ہیں۔

فوجی آمر ضیاء الحق اور اس کا ساتھ دینے والوں کو بھی بھٹو کے جیل میں  ہونے کے بعد یہ خوش فہمی لاحق تھی کے قیدی بھٹو کمزور ہوتا جائے گا مگر ان کی یہ خوش فہمی زیادہ دن تک برقرار نہ رہ سکی کیونکہ ملک میں ذوالفقارعلی بھٹو کے ہمدرد سختیوں اور کوڑوں کی سزاؤں کے باوجود "جئے بھٹو" کے نعرے لگا رہے تھے۔ ان کے ڈر سے یونیورسٹیوں اور کالجوں کو تالے لگائے جا رہے تھے۔ جہانگیر بدر نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ پورے ملک میں وہ شخص تھا جسے سب سے پہلے کوڑوں کی سزا ہوئی اور وہ ہر کوڑے پر "جئے بھٹو" کا نعرہ لگاتا رہا، اور بعد میں تھوڑی ہی دوری پر کھولی میں قید ذوالفقارعلی بھٹو نے اسے پیغام بھیجا تھا کہ یہ کوڑے تمہارے جسم پر نہیں، مجھ پر برس رہے ہیں۔   

جس وقت ملک میں بھٹو کی مقبولیت میں کمی  کے دعوے کیے جا رہے تھے، تو اس دوران 7 فروری 1979 کو نیو یارک ٹائمز نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ "بھٹو فوجی بغاوت سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہیں"۔

ذوالفقارعلی بھٹو نہ صرف پاکستان میں ایک مقبول ترین لیڈر تھے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کی مقبولیت کو تسیلم کیا جاتا تھا جس کی مثال "فار ایسٹرن اکنامک ریویو" کے 16فروری 1979 کے اس اداریے سے لی جا سکتی ہے جس میں وہ امریکا کے 41 ویں نائب صدر نیلسن راکفیلر کے ایک جملے کا حوالہ دیتے ہیں کے نیلسن نے بھٹو کے بارے میں کہا تھا "خدا کا شکر ہے کہ میرا کسی انتخاب میں ان سے مقابلہ نہیں ہوا"۔  

اس کے باوجود بھی ہمارے ملک میں پیپلز پارٹی کے سکڑنے کی خبریں گردش کر رہی تھیں اور پیپلز پارٹی کے مخالف یہ سمجھ رہے تھے کہ پیپلز پارٹی ختم ہونے کو ہے، اسی وجہ سے بھٹو کو سزائے موت کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ہی مخالفین نے مٹھائیاں بانٹنا شروع کر دی تھیں۔

لیکن ان سب گردشی خبروں کے برعکس بین الاقوامی میڈیا بھٹو کی مقبولیت میں اضافے کی خبریں اور اداریے چھاپ رہا تھا۔ 16 فروری 1979 کو "ایشیا ویک" کی رپورٹ کے مطابق پاکستان قومی اتحاد میں شریک ایک اہم مذہبی جماعت کے کارکن بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائے جانے پر مٹھایاں بانٹ رہے تھے اور شکرانے کے نوافل ادا کر رہے تھے، مگر اس کے دو دن بعد 18 فروری کو لندن کے مقبول جریدے گارجین نے لکھا تھا کہ پاکستان میں "ایسے انتخابات کبھی نہیں ہوں گے کہ جس میں بھٹو کو آزادانہ طور پر مسترد کردیں، یہ بھوت کبھی دفن نہ ہو گا"۔

پی این اے کے سربراہ مفتی محمود نے بھٹو کو پھانسی ہونے کے بعد ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "پاکستان پیپلز پارٹی بھی بھٹو کے ساتھ مر گئی" لیکن اگر ایسا تھا تو بھٹو خاندان کی دو عورتیں کیوں رہا نہیں کی جا رہی تھیں؟ اور 27 اپریل 1979  کی "فار ایسٹرن اکنامک ریویو" کی رپورٹ نے مفتی محمود کے پیپلز پارٹی کی موت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ "محمود کے دعوے کے برعکس عوام میں پیپلز پارٹی کی حمایت اب بھی برقرار ہے۔ غور و فکر کرنے والے ہمدردوں کو یقین ہے کہ اگر غیر متوقع طور پر پی پی پی کے رہنما اور کارکن رہا کر دیے جاتے ہیں اور 17 نومبر کے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے تو یقینی طور پر پارٹی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آ جائے گی"۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے مختلف اوقات میں یہ دعوے سننے کو ملتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ختم ہو گئی ہے یا سکڑ رہی ہے، لیکن تاریخی طور پر ایسے دعوے ہمیشہ غلط ہی ثابت ہوتے آئے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بینظیر بھٹو کی جلا وطنی میں بھی ایسی ہی سرگوشیاں سننے کو ملتی تھیں اور مشرف کا ساتھ دینے والے کئی سیاسی وڈیرے اس قسم کے دعوے کرتے ہوئے نظر آئے مگر 18 اکتوبر 2007 کو جب بینظیر بھٹو وطن واپس لوٹیں تو لاکھوں کے مجمعے نے سیاسی پنڈتوں کے پیپلز پارٹی کے انتم سنسکار کی خواہش کو ہی مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔ اور پیپلز پارٹی کا ختم قرار دیا جانے والا باب پھر سے کھل گیا۔

پیپلز پارٹی کے سکڑنے اور علاقائی پارٹی میں تبدیل ہونے کے دعوے آج بھی ہماری سیاسی فضا میں موجود ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پنجاب سے غیر ممکنہ شکست کے بعد سے ایسی سرگوشیوں نے زور پکڑا اور تحریک انصاف کے دھرنوں کے بعد ان میں مزید تیزی آئی۔ جبکہ بلاول بھٹو ذرداری کے معافی نامے سے کئی سیاسی مخالفین کے دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں۔

اس معافی نامے کا مقصد اگر کوئی سمجھتا ہے کہ باغی کارکنان کو اسٹاپ کا اشارہ دینے کی ناکام کوشش ہے تو وہ خوش فہمی میں مبتلا ہے۔ میرے خیال سے یہ معافی نامہ پیپلز پارٹی کے کارکنان میں صور پھونکنے کے مترادف ہے۔ ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے کارکنان کو یہ اشارہ دینا ہے کہ میں میدان میں آ گیا ہوں۔

دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرداری کا لاہور میں ڈیرے ڈالنا اور پارٹی کے مقامی رہنماؤں سے ملاقاتیں اس بات کا پختہ ثبوت ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کی واپسی اور پارٹی کو متحرک کرنے میں سنجیدہ ہو گئی ہے۔ کیونکہ آصف زرداری نے پیپلز پارٹی پنجاب کے کئی اہم اور سینئر رہنماؤں کو گزشتہ دور میں نظر انداز کیے رکھا اور اب وہ اپنی غلطی کو درست کرنے میں مصروف عمل نظر آرہے ہیں، کیونکہ پارٹی کی قیادت جانتی ہے کہ پنجاب میں حمایت حاصل کرنے کے سوا اقتدار ممکن نہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں اپنا پتہ پھیکنے کی مکمل تیاری بھی کر لی ہے اور یہ پتہ پیپلز پارٹی کے لیے یقیناً کارگر ثابت ہو گا۔

جہاں تک پیپلز پارٹی کے خاتمے کا سوال ہے تو وہ اس کے بانی نے اپنی حیات میں ہی شاید یہ الفاظ پیپلز پارٹی کے خاتمے اور بھٹو کی گمنامی کی خبروں کی گردش کو ہی سامنے رکھتے ہوئے کہے تھے کہ "میں موت کی کوٹھری میں مرنے کے لیے پیدا نہیں ہوا"۔

فار ایسٹرن اکنامک ریویو نے 16 فروری 1979 کو لکھا تھا کہ " بھٹو پھانسی پر موت سے ہمکنار ہوں یا جیل میں گھل جائیں، مگر بھٹو ازم جاری رہے گا" اس کی یہ پشنگوئی ابھی تک صحیح ثابت ہوتی آرہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بھٹو کی تلوار کا سایہ ابھی تک پاکستان پر منڈلا رہا ہے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔
       

یہ بلاگ 17 اکتوبر 2014 کو ڈان اردو پر شایع ہو چکا ہے.

Thursday, 9 October 2014

تحریک انصاف کا نیا پاکستان

تحریک انصاف کا نیا پاکستان  
تنویر آرائیں

14 اگست 2014 سے ن لیگ حکومت کے خلاف شروع ہونے والی تحریک انصاف کی مہم کئی مراحل سے گزرتی ہوئی ان دنوں موبائل دھرنوں کی شکل اختیار کر چکی ہے، جو دن کو کہیں نہ کہیں بھٹکتی ہوئی رات کو اسلام آباد  پہنچتی ہے۔ دن گزرتے جا رہے ہیں اور مایوسیوں کے بعد نئی امنگیں ایک بار پھر اس مہم میں جان ڈال دیتی ہیں۔ لاہور سے لانگ مارچ کی صورت میں شروع ہونے والی یہ مہم سول نافرمانی، دھرنے اور "گو نواز گو" کے نعرے لیتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔ آج ملک کی عوام کا ایک حصہ یہ سوچ رہا ہے کہ میاں نواز شریف صاحب استعفیٰ دے دیں گے اور دوسرا حصہ اندازہ لگا رہا ہے کے اپنے ہاتھ سے اپنے اقتدار کا گلا کوئی کیسے دبوچ سکتا ہے۔ وہ بھی اس وقت کہ جب پارلیمنٹ میں موجود ایک جماعت کے علاوہ تمام جماعتیں حکومت کے ساتھ ہوں۔

اس مہم کے ابھی تک طے کرنے والے سفر میں ہم روزانہ جو خطابات سن رہے ہیں وہ یقیناً سبز باغ تو ہیں لیکن ان پر عمل بھی ہونے کا یقین واقعی ایک اہم نقطہ ہے۔ ان تمام تر سبز باغات کے پورے نہ ہونے کی مثالیں ہماری تاریخ میں بھری پڑی ہیں۔ انتخابی مہم میں بھی بڑے بڑے وعدے کیے جاتے ہیں اور انتخابات کے بعد سلیمانی ٹوپی پہن کر غائب ہوتے ہوئے بھی عوام گزشتہ 65 سالوں سے  کئی لوگوں کو دیکھتے آئے ہیں۔

عمران خان صاحب نے لاہور سے نکلتے وقت جو تقریر رٹی تھی وہی تقریر ابھی تک خان صاحب کے ذہن میں ہے۔ تقریباً 45 دن سے وہی کھٹی میٹھی چیزیں سننے کو مل رہی ہیں۔    

پرانے سانچے سے نئے مال کی امید  بالکل ایسے ہی ہے جیسے گدھے کے ہاں ہرن کی پیدائش۔ خان صاحب بھی سیاسی لاوارثوں اور لوٹوں کی فوج سے نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے کے دعوے کر رہے ہیں اور اس ٹیم کو بہترین ٹیم کے القابات سے نواز رہے ہیں۔ اگر شاہ محمود قریشی، شیخ رشید، شفقت محمود، اعظم خان سواتی، جہانگیر ترین، پرویز خٹک سمیت ایک طویل فہرست اتنی بہترین ٹیم ہیں تو یہ ٹیم پرویز مشرف، پیپلز پارٹی، ن لیگ یا جماعت اسلامی کے لیے کارآمد کیوں نہ ثابت ہو سکی؟

خان صاحب فرماتے ہیں کہ اسٹیٹس کو کا خاتمہ کریں گے، تو خان صاحب  اس کی شروعات دائیں بائیں سے کیوں نہیں کرتے؟ دائیں بائیں لوٹوں، سیاسی یتیموں، اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹوں اور اسٹیٹس کو کے علمبرداروں کی بھرمار ہے اور خان صاحب ان تمام کریکٹروں کو دوسری بوگیوں میں تلاش کر رہے ہیں۔

وی آئی پی کلچر کے خاتمے کی بلند و بانگ دعوے بھی اس وقت اچھے لگیں گے جب دعویٰ کرنے والا خود بھی "ہیلی کاپٹر" اور بلیٹ پروف V8 میں سفر نہ کرے۔ VIP  کلچر کے خاتمے کے دعوے کرنے والوں کو پہلے اپنی ذات سے VIP کلچر کا خاتمہ کرنا چاہیے۔

اگر خان صاحب کو عوامی  خزانے کے لٹنے کا واقعی دکھ ہے تو اسلام آباد میں خیبر پختونخواہ ہاؤس کا استعمال ذاتی معاملات کے لیے کیوں ہو رہا ہے؟ پہلے دھرنوں میں شریک ہونے والی اہم شخصیات کے لیے مسافر خانہ بننے والے خیبر پختونخواہ ہاؤس کو خالی کروایا جائے پھر دکھ بانٹے جائیں تو یقیناً ان کے دعوے اثر انداز ثابت ہوں گے۔

ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں تعلیمی اصلاحات کی ضرورت ہے یقیناً خان صاحب کو اس نقطے کو زیر بحث لانا چاہیے لیکن اس سے پہلے اپنے بچے بھی پاکستان لانے چاہیئں اور کم از کم وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو بھی یہی نصیحت کرنی چاہیے۔

خان صاحب باریاں لینے کا بھی تذکرہ فرماتے ہیں کہ تیری باری اور میری باری کا کھیل چل رہا ہے، خان صاحب سے عرض ہے کہ اسٹیج پر جمع مجمعے پر غور کریں تو آپ کو گزشتہ 3 دہائیوں سے باریاں لینے والے ملیں گے اور جن کی طرف آپ کا اشارہ ہے وہ ہمیشہ اپنی باریاں چھینتے ہوئے پائے گئے ہیں، چاہے وہ PNA کی شکل میں ہوں، IJI یا GDA کے روپ میں ہمیشہ ان کو وکٹ پر کھڑا کر کے گیند کرائے  بغیر ہی آؤٹ قرار دے دیا جاتا ہے، جیسا کہ اس بار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

خلفاء راشدین کے طرز کی سادگی اپنانے کے دعوے کرنے سے پہلے ایئر کنڈیشنڈ اور بلٹ پروف کنٹینر، پرائیویٹ جیٹ، ہیلی کاپٹر اور V8 یا لیکسس کا استعمال ترک کرکے عوامی ٹرانسپورٹ میں عوام کے ساتھ سفر، منرل واٹر کے بجائے عام پانی اور کنٹینر کے بجائے عوام کے ساتھ خیموں میں رہنے کی عادت ڈالنی پڑے گی۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب نے کراچی اور لاہور میں کامیاب جلسے کیے، مگر ان جلسوں میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد کو ووٹرز کی تعداد سمجھنا خوش فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا، اور سیاست میں سب سے مشکل کام بھی جلسے جلوسوں میں شریک تعداد کو ووٹرز میں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔

دسمبر 2012 میں پاکستان مسلم لیگ فنکشنل نے حیدرآباد میں پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ میں لائے گئے نئے بلدیاتی قانون کے خلاف ایک جلسہ منعقد کیا تھا، جس میں لاکھوں کی تعداد میں عوام نے شرکت کی تھی۔ وہ جلسہ اتنا کامیاب تھا کہ سندھ کے کئی اہم سیاستدانوں نے اس جلسے سے متاثر ہو کر یا تو فنکشنل لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی یا پارٹیاں چھوڑ کر آزاد حثیت میں انتخابات لڑنے کا فیصلہ کر ڈالا تھا اور کچھ تو جلسے سے ایسا متاثر ہوئے کہ پیپلز پارٹی میں شمولیت کے کچھ دن بعد ہی پیپلز پارٹی چھوڑ گئے تھے۔

ان تمام تر سیاسی وڈیروں کا خیال تھا کہ اس بار فنکشنل لیگ سندھ میں حکومت بنائے گی۔ ان میں سے کئی لوگوں نے اس بات کا مجھ سے اظہار بھی کیا تھا۔ میں یہاں ان کے نام لے کر ان کے زخموں پی نمک پاشی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن نتیجہ بالکل برعکس نکلا۔ اس کے علاوہ جنوری 2012 میں کراچی میں جمعیت علماء اسلام (ف) کی جانب سے بھی ایک کامیاب جلسہ منعقد کیا گیا تھا مگر جلسے کے شرکاء کو ووٹرز میں تبدیل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔

ایسے لاتعداد جلسے ہماری تاریخ کا حصہ ہیں جو کہ جلسوں کی حد تک تو بہت کامیاب نظر آئے، لیکن انتخابات میں کامیابی کا سبب نہیں بن پائے۔

عمران خان صاحب کے جلسے میں آنے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں ڈسکو پارٹی ایک اہم وجہ ہے۔ ظاہر ہے جس ملک میں انٹرٹینمنٹ کے مواقع دستیاب نا ہوں گے وہاں اگر جلسے جلوسوں میں ہلہ گلہ ملے تو جانے میں کیا حرج ہے؟ اور ٹکٹ کی جگہ "گو نواز گو" کا اسٹیکر یا گال پر پی ٹی آئی کا جھنڈا بنوانے سے مسئلہ حل ہو جائے تو اس سے سستا سودا اور کیا ہو سکتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے پاس اس وقت سنہری موقع ہے کہ وہ خیبر پختونخواہ میں اپنی بہترین ٹیم کے دعوے کو ثابت کریں اور کارگردگی کی بنیاد پر اپنی جڑیں عوام میں مضبوط کر کے اقتدار میں آئیں، نا کہ رسہ کشی کا استعمال کر کے خود کو متنازعہ بنائیں اور عوام میں اپنی مقبولیت کو کم کریں۔ اس طرح سے اقتدار میں آنے کا فائدہ ان کی پارٹی کو نہیں بلکہ ان قوتوں کو ہوگا جو وقتاً فوقتاً دیگر پارٹیوں کو استعمال کرتی رہی ہیں۔ ایسے استعمال سے تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈالے گئے سیاسی مفاد پرست ٹولے کو تو فائدہ ہو گا مگر عوام کے کسی فائدے کا نہیں سوچا جا سکتا۔

یہ بلاگ 6 اکتوبر 2014 کو ڈان اردو پر شایع ہو چکا ہے.

Tuesday, 7 October 2014

قدرتی آفات اور پاکستان

قدرتی آفات اور پاکستان   

تنویر آرائیں


سیلاب نے ایک بار پھر ملک کی عوام کو دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ قدرتی آفات کے باعث سینکڑوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اور بے  گھر ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہوچکی ہے۔ عوام ایک بار پھر بلبلا اٹھی ہے۔

اس سے پہلے بھی آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے ہمارے ملک کے تقریباً دس لاکھ لوگ بنوں میں زیر عتاب ہیں۔ اس کے علاوہ دو صاحب اور بھی ہیں جو اسلام آباد میں کیمپ لگائے بیٹھے ہیں، اور خود کو نظام اور انتخابات متاثر کہہ رہے ہیں۔ ان تینوں قسم کے متاثرین کے بارے میں تفصیلی بحث آئندہ کسی بلاگ میں ضرور کریں گے۔

اس وقت ملک میں اہم ترین مسئلہ سیلاب ہے تو بات اسی پر کرنی چاہیے۔ جولائی 2010 میں شدید بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 20 ملین یعنی 2 کروڑ لوگ متاثر ہوئے تھے۔ 307,374 مربع میل علاقہ زیرآب آیا تھا اور تقریباً دو ہزار کے قریب اموات ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے انفراسٹرکچر اور املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2010 کے اس سیلاب سے ملکی معیشت کو تقریباً 4.3 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔

2010 کے سیلاب سے بڑے پیمانے پر سڑکیں تباہ ہوئیں، 10,000 کے قریب ٹرانسمیشن لائنیں اور ٹرانسفارمرز متاثر ہوئے، جبکہ 150 پاور ہاؤسز زیرآب آئے۔ جس کے باعث 3۔135 گیگا واٹ توانائی کا شارٹ فال ہوا۔

نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق 29 ستمبر تک تقریباً  2,523,681 لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ 360 افراد جاں بحق، 646 لوگ زخمی، اور 56,644 گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 4065 سے زائد دیہات بھی متاثر ہوئے، جبکہ 2,416,558 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں اور 8957 سے زائد مویشی سیلاب میں بہہ گئے۔
------------
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے مطابق قدرتی آفات سے پہلے انتظامات پر جہاں ایک ڈالر خرچ آتا ہے، وہاں آفات کے بعد سات ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قبل از آفات انتظامات نہ کرنے سےخرچ 6 گنا بڑھ جاتا ہے اور جانی نقصان اس کے علاوہ ہوتا ہے۔ مگر کیا کہنے ہماری حکومتوں کے۔ تاریخ گواہ ہے کے پاکستان میں ممکنہ خطرات کے پیش نظر کبھی بھی کوئی انتظامات دیکھنے کو نہیں ملے۔

اس وقت سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں میں ریسکیو کا عمل جاری ہے جس میں ضلعی انتظامیہ، ریسکیو 1122 اور پاک فوج حصہ لے رہی ہے۔ جبکہ سیلابی ریلا آگے کی جانب گامزن ہے جس سے مزید قیمتی جانوں اور املاک کے نقصان کا خدشہ ہے۔

2010 کے تباہ کن سیلاب کے بعد عدالتی کمیشنز بنے، جنہوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں پر اپنی رپورٹس مرتب کر کے صوبائی حکومتوں کے حوالے کیں۔ ان رپورٹس میں انتظامیہ کی جانب سے برتی جانے والے غفلت سمیت کئی  چیزوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ مگر حسب معمول فائلیں سرد خانے کے حوالے کر دی گئیں۔

2010 کے سیلاب میں سندھ کے کئی سیلاب زدہ علاقوں میں جو عام شکایات میرے سامنے آئیں، وہ دریائی راستوں اور نکاسی آب کے راستوں پر ناجائز تجاوزات تھیں۔ کئی متاثرین نے بات چیت کے دوران مجھے بتایا کہ نکاسی آب کے قدرتی راستوں پر دریاؤں کے بندوں کو ہموار کر کے وہاں آبادی کی گئی ہے، جس کی وجہ سے سیلابی پانی کا دباؤ بڑھا اور کئی جگہوں پر شگاف پڑے جن کی وجہ سے بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

ہمارے ملک میں ایک اور چیز بھی عام ہے، وہ ہے کچے میں آبادی، جس کو ہماری عوام اپنا حق سمجھتی ہے اور انتظامیہ بھی اس قسم کے تجاوزات کی جانب توجہ نہیں دیتی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کشمور سے کیٹی بندر تک کچے میں تقریباً 24 لاکھ افراد مقیم ہیں اور وہاں زراعت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ اگر پانی کا  بڑا ریلا دریائے سندھ سے گزرتا ہے تو وہ ابتدائی طور پر 24 لاکھ کی آبادی کو متاثر کرے گا جو زبردستی متاثر ہونے کے مترادف ہے۔

سندھ میں قدرتی آبی راستوں پر ناجائز تجاوزات کے خلاف سندھ اسمبلی میں قانون بھی پاس ہو چکا ہے، جس کے تحت تجاوزات میں ملوث افراد پر سخت سزائیں اور بھاری جرمانے بھی عائد کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ قانون بھی بالکل ویسے ہی ردی کی نذر ہوچکا ہے جیسے کہ دیگر قوانین۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اس قسم کی ناجائز تجاوزات میں وہ لوگ ملوث ہیں جو سیاسی حلقوں میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں یا جن کے دم پر ایم پی اے یا ایم این اے ایوانوں تک پہنچتے ہیں۔

پاکستان میں عموماً قوانین بنتے ہی توڑے جانے کے لیے ہیں، اور ان پر عملدرآمد کے بجائے ان کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں۔

اب جب کہ پاکستان کی حکومتیں جانتی ہیں کہ Climate Change کی وجہ سے ہر سال سیلاب میں شدت آنے کا امکان ہے تو ایسے میں ایوانوں میں یہ کہنا کہ ہمیں تو پتا ہی نہیں چلا اور اچانک  سیلاب آ گیا، ایک مجرمانہ غفلت کو چھپانے کی ناکام کوشش کے مترادف ہے۔ اس قسم کی احمقانہ باتوں کے جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ حضور قدرتی  آفات بتا کر نہیں آتیں ہر ملک ممکنہ خطرے کے پیش نظر بندوبست کرتا ہے، اور اپنی عوام کی جان و مال کے ہر ممکن تحفظ کے لیے عملی بندوبست کرتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ National Climate Change Policy منظور ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ذمہ دار ادارے اور وزراء اس پر عملدرآمد کے لیے تیار نہیں ہیں۔

تمام ترقی یافتہ ممالک میں ممکنہ خطرات کے پیش نظر پیشگی انتظامات کیے جاتے ہیں جبکہ ہمارے پاس پیشنگوئی کے باوجود کوئی انتظامات دیکھنے کو نہیں ملتے۔ تباہ کاریوں کے بعد، بجائے اس کے کہ کمزوریوں اور غلطیوں سے سبق سکھ کر مستقبل میں ایسی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے کوئی پالیسی بنائی جائے، ہم ایک دوسرے کے خلاف الزامات کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ ویسے بھی پالیسیوں پر عملدرآمد تو ہوتا نہیں ہے تو بنانے کا فائدہ کیا ہو گا۔ جو پہلے بنی ہوئی ہیں، وہ بھی منوں مٹے تلے دب چکی ہیں۔

جب تک ہمارے ملک میں قوانین سنجیدگی سے نہیں بنیں گے، اور ان پر عملدرآمد نہیں ہو گا، ہم ہردفعہ ایسے ہی نقصانات کا سامنا کرتے رہیں گے، اور عوام کی چیخ و پکار ہمارے کانوں میں گونجتی رہے گی۔ ساتھ ساتھ معیشیت بھی ڈوبتی چلی جائے گی۔
______________________________________________
لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر@tanvirarain کے نام سے لکھتے ہیں۔

______________________________________________   

یہ بلاگ 1 اکتوبر 2014 کو ڈان اردو پر شایع ہو چکا ہے.