Monday, 29 September 2014

مذہب معاشرہ اور ریاست

مذہب معاشرہ اور ریاست
تنویر آرائیں

پاکستان کہنے کو تو 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا تھا لیکن کیا پاکستان ایک آزاد مملکت ہے جہاں ہر شخص کو کہنے، سننے، لکھنے، پڑھنے، کام کرنے یا اپنے مذہبی، سماجی، معاشرتی فرائض سرانجام دینے کی آزادی ہو؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر باشعور پاکستانی کے ذہنوں میں کبھی نہ کبھی گردش ضرور کرتا ہے. جب بھی اس سوال کا جواب ڈھونڈھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر پاکستانی کو جو چیز نظر آتی ہے اسے "غلامی" کہتے ہیں.

ذرا سی سنجیدگی سے اگر ہم اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیں تو ہمیں قدم قدم پر بندشوں کی ایک طویل قطار نظر آتی ہے جو پاکستانی قوم کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور ملک روز بروز ترقی کے بجاۓ پسماندگی کی طرف بڑھ رہا ہے.

جس ملک میں کچھ کہنے پر پرچے درج ہوں، لکھنے پر لفافہ لکھاری کے الزامات، پڑھنے پر فرقوارانہ فسادات اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ  کام کرنے پر ایجنٹ قرار دیا جاۓ تو اس معاشرے میں نئے خیالات، نئی سوچ اور صلاحیتوں کو زنگ ہی لگے گا اور پسماندگی کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو پائے گا.

ہمارے ہاں سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کا استعمال ایک ایسی تدبیر ہے کے جس سے ہر مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے. کیوں کے پاکستان مذہبی بنیاد پر قائم ہوا تھا. آج بھی پاکستان میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مذہب کو سب سے زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے، چاہے وہ فرقوں کی بنیاد پر ہو یا دو مذاہب کی بنیاد پر. جسے ہم Sectarianism یا Comunalism کہہ سکتے ہیں، پاکستان میں ان دو قسموں کے انتشار کے پیچھے جو عوامل کار فرما ہیں وہی پاکستانی معیشیت کو تباہ کر رہے ہیں.

پاکستان میں یہ فسادات آزادی کے اعلان کے ساتھ ہے شروع ہو گئے تھے یہاں پر ہندوں اور سکھوں کا قتل عام ہوا اور سرحد کے اس پار مسلمانوں کا. لیکن اس کے بعد بھی کسی نے یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کے اس قسم کے فسادات کو کیسے روکا جاۓ، بلکے روکنے کے بجاۓ دونوں ممالک نے ان فسادات میں دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی.

پاکستان میں 1970 کی دہائی میں احمدیوں کو غیر مسلم  قرار دے کر اقلیت بنا دیا گیا اور ان کے خلاف جو قوانین بنے انہوں نے معاشرے میں ان کا جینا تنگ کر دیا اور اس کے بعد دوسری مہم شیعہ فرقے کو کافر قرار دینے کی ہے.

سیاستدان سیاسی مقاصد کے لئے اس تقسیم کو رائج رکھنا چاہتے ہیں. جس تقسیم کی شروعات برطانوی راج میں ہوئی تھی. احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور اس کے بعد ان کے خلاف بننے والے قوانین نے جو کمیونل فسادات برپا ہوۓ ان کے باعث ہزاروں کی تعداد میں احمدی پاکستان سے دیگر ممالک ہجرت کر گئے. یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کے جب بھی کوئی کسی ملک سے ہمیشہ کے لئے منتقل ہوتا ہے تو وہ اپنا سرمایا بھی ساتھ لے کر جاتا ہے جس سے ملکی معیشیت کو نقصان ہوتا ہے.

UNHCR  کے مطابق 2013  میں پاکستان سے 1489 لوگ سری لنکا منتقل ہوۓ جن میں بڑی تعداد عیسائیوں اور احمدیوں کی ہے.

آج ماڈل ٹاؤن حادثے میں 14 لوگوں کی اموات پر ملک کے دارلحکومت میں دھرنا جاری ہے اور وزیراعلی پنجاب کے استفیٰ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے. ملک کے تقریباً سب ہی دانشور، ادیب اور میڈیا سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ریاستی دہشتگردی قرار دے رہی ہے. 2010  میں بھی ماڈل ٹاؤن میں احمدیوں کی ایک عبادت گاہ پر حملہ ہوا تھا جس میں درجنوں لوگ جاں بحق ہوۓ تھے مگر اس وقت کسی نے بھی دھرنا نہیں دیا تھا اور کسی دانشور نے  اپنی زبان اور قلم کا استعمال اس طرح نہیں کیا تھا. (ایسے کئی حادثات پر خاموشی کی وجہ سے ہی میں اوپر یہ لکھ چکا ہوں کے بولنے اور لکھنے کی آزادی سلب ہے).
ایسے ہی کاروائیاں سندھ میں ہندوؤں کے خلاف جاری و ساری ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہندو سندھ سے نقل مکانی کر چکے ہیں، سندھ میں ہندو سب سے بڑے کاروباری جانے جاتے ہیں جن کا کاروبار لاکھوں سے شروع ہو کر اربوں تک جاتا ہے. لیکن ملک میں جاری کمیونل ازم کی فسادی لہر نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں. مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر رمیش کمار وانکانی نے قومی اسمبلی میں کو بتایا کے ہر سال پاکستان سے 5,000 ہندو نقل مکانی کرتے ہیں.

ایسا ہی کچھ ماحول سکھوں کے لئے بنایا جا رہا ہے تا کہ وہ بھی خود کو غیر محفوظ تصور کریں اور پاکستان سے دیگر ممالک کی طرف کوچ کر جائیں.

ہم ہمیشہ مہذب دنیا کی مثالیں دیتے ہیں لیکن ان کی تاریخ یا اپنی تاریخ سے ہم نے ہم نے کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کی. عیسائی دنیا خاص طور سے یورپ اس وقت سخت فرقوارانہ جنگوں میں الجھی جب مارٹن لوتھر نے کیتھولک مذہب  چیلنج کیا اور اس کے نتیجے میں پروٹیسٹنٹ فرقہ وجود میں آیا. فرقوارانہ فسادات اس وقت اور شدّت اختیار کر گئے جب کیتھولک و پروٹیسٹنٹ فرقوں کو مختلف ریاستوں کی حمایت حاصل ہوئی. یا ایسا کہہ  لیجئے کے فرقوارانہ ریاستوں کا قیام  عمل میں آیا. فرانس کیتھولک رہا اور پروٹسٹنٹون کے خلاف رہا، انگلستان کا حکمران پروٹیسٹنٹ ہوگیا تو وہاں کیتھولک فرقہ دشمن بن گیا. خاص طور پر یورپ سولہویں صدی میں فرقوارانہ فسادات کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا. ان فسادات کی وجہ سے فرانسی معاشرہ ٹکرے ٹکرے ہو گیا.

معروف انگریز مورخ "ایچ اے ایل فشر" یورپ کی تاریخ میں لکھتا ہے کے "فرقوارانہ جنگوں نے فرانس کی صدیوں سے حاصل شدہ قومی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا. ایک شہر دوسرے شہر کا دشمن ہو گیا ایک خاندان دوسرے خاندان سے برسر پیکار ہو گیا لوٹ مار قتل و غارت گری اور توڑ پھوڑ روز مرہ کی زندگی کا معمول بن گئی. مذہب کے نام پر ذاتی دشمنیاں بھی بھگتائی گئیں.جب پورا فرانس جل رہا تھا تو دانشور اور اخلاقیات کے پیروکار خاموشی سے یہ سب تماشہ دیکھ رہے تھے".

یہی کچھ آج ہمارے ملک میں ہو رہا ہے شیعہ سنی کے نام پر قتل غارت، ہندو مسلمان کے نام پر قتل و غارت. اور بلکل سولہویں صدی کے یورپ کی طرح ہمارے حکمران ایک خاص فرقے کی پشت پناہی کرتے ہوے نظر آتے ہیں. جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہمارا معاشرے بکھرا ہوا نظر آ رہا ہے.

جس طرح فرقوارانہ فسادات کی وجہ سے فرانس سے پروٹیسٹنٹوں نے خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوۓ ہجرت کی تھی اسی طرح آج پاکستان سے نقل مکانی ہو رہی ہے جس سے معاشرہ غیر محفوظ اور معیشیت تباہ ہو رہی ہے. ملک سے باصلاحیت افراد دوسرے ملکوں میں پناہ لے رہے ہیں.

جس طرح اسپین اور فرانس سے ہنر مند افراد کی ہجرت سے دونوں ممالک ترقی کرنے کے بجاۓ تباہی کی طرف  بڑھنے لگے تھے بلکل اسی طرح آج ہمارے ملک سے بھی ڈاکٹر، انجنیئر، تاجر طبقے اور ہنر مند لوگوں کی ہجرت سے ہم ترقی کے بجاۓ تباہی و بربادی کی جانب گامزن ہیں.

اسپین میں مسلمانوں کی عیسائیوں کے ہاتھوں سکشت کے بعد جب ان لوگوں نے مسلمانوں اور یہودیوں کے خلاف تحریک چلائی تو اسپین میں مقیم کثیر تعداد میں مسلمانوں اور یہودیوں کو ہجرت کرنی پر جس کا نتیجہ یہ نکلا کے اسپین ہزاروں دستکاروں، ہنر مندوں اور تاجروں سے محروم ہو گیا. 1462 میں انکوئیزیژن کے محکمے کو حرکت میں لایا گیا جس کے زریعے مسلمان، یہودی اور دیگر غیرعیسائیوں پر نظر رکھی جاتی تھی اور انھیں زبردستی عیسائی بنایا جاتا تھا یا قتل کر دیا جاتا تھا.

یورپ نے فرقہ واریت کے خاتمے کو ہی ترقی کا زینہ جانتے ہوۓ ایسے قوانین بناۓ جن میں ہر فرقے ہر مذہب کو مساوی حقوق حاصل ہوۓ. جس کی شروعات 1598 میں فرانس سے ہوئی جس نے کچھ قوانین  (Edicts of Nante) بناۓ جس کے تحت فرانس میں پروٹسٹنٹوں کو مذہبی آزادی دی گئی، شہری حقوق میں مساویانہ برتاؤ کیا گیا. اس کے بعد آہستہ آہستہ قوانین بنتے گئے اور فرقہ وارانہ اور مذہبی فسادات تھم گئے.

پاکستان میں بھی اگر معیشیت کو مضبوط کرنا ہے تو سب سے پہلے فرقوارانہ، مذہبی اور لسانی فسادات کو روکنا ہو گا. یہ اس وقت ہی ممکن ہو سکے گا جب ریاست ایک فرقے کی نہیں ایک قوم کی نمائندگی کرے گی.            
______________________________________________
لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر@tanvirarain کے نام سے لکھتے ہیں۔
______________________________________________       

 

                  

Wednesday, 17 September 2014

اجتماعی سیاسی قبر

اجتماعی سیاسی قبر

تنویر آرائیں


گزشتہ تقریباً دو ہفتوں سے جاری افراتفری نے پورے ملک کو مفلوج بنایا ہوا ہے، ایک طرف انقلاب، دوسری طرف آزادی، اور تیسری طرف جمہوریت کے راگ الاپے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی گیدڑ بھپکیاں سننے میں آ رہی ہیں، تینوں گروپوں کی  جانب سے خود کو صحیح ثابت کرنے کے لیے پارلیمنٹ، تقریر، خطابات، قرآن و حدیث کا استعمال اور منت سماجت و ترلوں سے ہوتے ہوئے دعوت ناموں تک کی جدوجہد سامنے آئی۔

عملی طور پر یکم اگست سے جاری اس افراتفری کا نتیجہ ملکی معیشت، عوامی نقل و حرکت، بنیادی حقوق کے استحصال کے روپ میں نکلا ہے۔ ملکی ادارے ایک بار پھر یرغمالی کی جانب بڑھنے لگے ہیں۔ ملک کو جہاں کئی ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، وہیں عوام میں بھی اس عمل کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

میرے خیال سے پاکستان میں پارلیمانی سیاست کرنے والی جماعتوں نے اپنی قبر کھودنے کا آغاز کر لیا ہے، سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ مارشل لا کے نفاذ پر اپنی افواج کو گھسیٹنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اگر ہم پاکستان میں نافذ ہونے والی مارشل لا کی طویل تاریخ کا جائزہ لیں تو ان کا سبب سیاسی جماعتیں ہی رہی ہیں۔ کسی نا کسی نابالغ تحریک کے بعد ہی ٹرپل ون بریگیڈ درالحکومت پہنچی اور مارشل لا کا نفاذ ہوا۔

آج پھر ملک میں ایک ایسی جدوجہد جاری ہے جس کو نابالغ یا غیر پلاننگ شدہ کہہ سکتے ہیں، جس کا نتیجہ عالمی حوالے سے انتہائی افسوسناک نکلا ہے۔ ایک لحاظ سے ہم دوبارہ آگے بڑھتے بڑھتے ریورس گیئر لگا چکے ہیں۔ جبکہ ساتھ ہی ساتھ عالمی برادری کو یہ میسج پہنچ چکا ہے کہ پاکستان کی سیاست کی لگام  ابھی تک اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہے، جو کہ انتہائی افسوسناک پیغام ہے۔

ایک طرف کئی ممالک کی جانب سے اس قسم کی لا متناہی خبریں جریدوں میں جڑی جاتی ہیں کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ جمہوریت اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت کا فوج کو سیاسی معاملات میں شریک ہونے کی دعوت دینا قابل مذمت ہے۔ پاکستانی افواج کو سیاسی معاملات میں ڈال کر ایک بار پھر دشمنوں کو موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ افواج پاکستان پر اپنے وار جاری رکھیں۔

دوسری جانب افواج پاکستان کو سیاسی معاملات میں شرکت کی دعوت دینا اس بات کا ثبوت فراہم کرنا ہے کے پاکستان کی سیاسی قیادت سیاسی معاملات سے نمٹنے کی طاقت  نہیں رکھتی، ٹھیک اسی طرح جیسے انتظامی معاملات (زلزلے، سیلاب یا دیگر قدرتی آفات) میں ناکامی کی صورت میں۔ اس دعوت نامے سے جہاں عوام کی نظر میں سیاسی جماعتوں کی افادیت کو شدید دھچکا لگا ہے عین اسی طرح بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے بارے میں بھی کوئی اچھی رائے نہیں گئی اور کئی قسم کے ابہام پائے جانے لگے ہیں۔

مجھ سمیت پاکستان کا ذرا سا بھی شعور رکھنے والے لوگ اس شراکت کو کوئی مفید عمل نہیں سمجھتے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جس میں سب سے اہم وجہ یہ ہے کے پاکستان کے سیاسی مسائل کو حل کرنا حکومت و سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے اور تمام تر اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہر ادارے کو اپنے فرائض خود انجام دینے چاہییں، یہاں تو ہر ناکامی کا حل جی ایچ کیو سے نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

میاں صاحب کی انتظامی ناکامیوں کا قصیدہ تو کئی حضرات پڑھ رہے ہیں، لیکن میاں صاحب نے خود کو ناکام ثابت کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ لیکن فوج کی شراکت کی ذمہ داری صرف ن لیگ پر نہیں ڈالی جا سکتی، اس میں عمران خان صاحب اور ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اپنا برابر بلکہ کافی حصہ ڈالا ہے۔

ایک لحاظ سے فرشتے اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ پاکستانی اداروں میں گزشتہ چند سال میں جو مداخلت کم ہوئی تھی اس عمل سے اس میں پھر تیزی آئے گی، جو طاقتیں گزشتہ کچھ عرصے سے ملکی معاملات میں دخل نہیں دے پا رہی تھیں یا انہیں ان معاملات سے الگ رکھا جا رہا تھا ایک بار پھر ان طاقتوں کو یہ موقع فراہم کیا گیا ہے کے وہ اپنا اثر و رسوخ اور گرفت مضبوط کریں۔ یہاں یہ کہاوت بلکل ٹھیک بیٹھتی ہے کہ سب نے مل کے "آ بیل مجھے مار" والے کلیے پر عملدرآمد کیا ہے۔

حقیقی جمہوریت کے دعویدار اور جمہوریت کی بقا کے بلند و بانگ نعرے لگانے والوں نے ایک بار پھر ملک کو نازک ترین دور میں دھکیل دیا ہے۔ کئی دنوں سے پاکستان کی عوام میں گردش کرنے والی افواہوں (کے یہ سکرپٹیڈ ہے )کو سچ ثابت کرنے میں خان اور قادری صاحب نے کوئی کثر نہیں چھوڑی۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک فریق نے حکومت اور دوسرے فریقوں نے عزت بچانے کے لیے ملک کو بدنام کیا ہے اور رائے عامہ ہموار کرنے کے بجائے عوام کو ہر معاملے میں فوج کی جانب دیکھنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ بلکل واضح ہو چکا ہے کہ اس سارے معاملے میں جمہوری و اخلاقی روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دونوں فریقوں نے ملک کی عزت و وقار کے بجائے اپنی انا کو بچانے کی کوشش کی ہے۔

پاکستانی سیاسی جماعتیں انا کی جنگ لڑتے لڑتے ملک و قوم کا ستیاناس کرنے پر تلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مجھے تو یہ لگتا ہے جس طرح ان لوگوں نے اپنی انا کی خاطر جمہوری روایات و سیاسی حکمت عملی کی دھجیاں بکھیری ہیں اسی طرح یہ لوگ اپنی بقا کے لیے ملک کی بقا کو بھی خطرے میں ڈالتے ہوۓ ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ جمہوریت کے چیمپئن جمہوریت کو ایک لمحے تک گرم ہوا سے محفوظ نہیں رکھ سکے اور ہاتھ کھڑے کر دیے۔

اب یہ حقیقت کوئی راز نہیں رہی کہ پاکستان کے سیاستدان جمہوریت، مینڈیٹ اور عوام کی حکمرانی کا گن اپنی کرسیاں بچانے کے لیے ہی گاتے رہتے ہیں۔ کاش! کہ ہمیں اب یہ سننے کو نہ ملے کہ عوام اور ملک کے وسیح تر مفاد میں آرمی سے رجوع کیا گیا۔ دوسری جانب سے یہ کہ افواج پاکستان کی یقین دہانی پر ہم وزیر اعظم کا استعفیٰ لیے بغیر واپس لوٹ رہے ہیں۔
اب جب کہ پاکستان کے عسکری ادارے کو ان معاملات میں جھونک دیا گیا ہے تو پاکستانی سیاسی جماعتیں اسی طرح اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوے اپنی ناکامی کو تسلیم کریں اور جمہوریت کا راگ الاپنا بند کریں۔ اپنی عوام جن کو وہ اپنا سمجھتے تو نہیں ان سے معذرت کرتے ہوئے یہ فرما دیں کہ مملکت خداداد جمہوریت کی متحمل نہیں۔  

لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے  ہیں۔
twitter: @tanvirarain
    

یہ بلاگ 29 اگست 2014 کو ڈان اردو پر شایع ہو چکا ہے .