مذہب معاشرہ اور ریاست
تنویر آرائیں
پاکستان کہنے کو تو 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا تھا لیکن کیا پاکستان ایک آزاد مملکت ہے جہاں ہر شخص کو کہنے، سننے، لکھنے، پڑھنے، کام کرنے یا اپنے مذہبی، سماجی، معاشرتی فرائض سرانجام دینے کی آزادی ہو؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر باشعور پاکستانی کے ذہنوں میں کبھی نہ کبھی گردش ضرور کرتا ہے. جب بھی اس سوال کا جواب ڈھونڈھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر پاکستانی کو جو چیز نظر آتی ہے اسے "غلامی" کہتے ہیں.
ذرا سی سنجیدگی سے اگر ہم اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیں تو ہمیں قدم قدم پر بندشوں کی ایک طویل قطار نظر آتی ہے جو پاکستانی قوم کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور ملک روز بروز ترقی کے بجاۓ پسماندگی کی طرف بڑھ رہا ہے.
جس ملک میں کچھ کہنے پر پرچے درج ہوں، لکھنے پر لفافہ لکھاری کے الزامات، پڑھنے پر فرقوارانہ فسادات اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کرنے پر ایجنٹ قرار دیا جاۓ تو اس معاشرے میں نئے خیالات، نئی سوچ اور صلاحیتوں کو زنگ ہی لگے گا اور پسماندگی کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو پائے گا.
ہمارے ہاں سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کا استعمال ایک ایسی تدبیر ہے کے جس سے ہر مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے. کیوں کے پاکستان مذہبی بنیاد پر قائم ہوا تھا. آج بھی پاکستان میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مذہب کو سب سے زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے، چاہے وہ فرقوں کی بنیاد پر ہو یا دو مذاہب کی بنیاد پر. جسے ہم Sectarianism یا Comunalism کہہ سکتے ہیں، پاکستان میں ان دو قسموں کے انتشار کے پیچھے جو عوامل کار فرما ہیں وہی پاکستانی معیشیت کو تباہ کر رہے ہیں.
پاکستان میں یہ فسادات آزادی کے اعلان کے ساتھ ہے شروع ہو گئے تھے یہاں پر ہندوں اور سکھوں کا قتل عام ہوا اور سرحد کے اس پار مسلمانوں کا. لیکن اس کے بعد بھی کسی نے یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کے اس قسم کے فسادات کو کیسے روکا جاۓ، بلکے روکنے کے بجاۓ دونوں ممالک نے ان فسادات میں دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی.
پاکستان میں 1970 کی دہائی میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر اقلیت بنا دیا گیا اور ان کے خلاف جو قوانین بنے انہوں نے معاشرے میں ان کا جینا تنگ کر دیا اور اس کے بعد دوسری مہم شیعہ فرقے کو کافر قرار دینے کی ہے.
سیاستدان سیاسی مقاصد کے لئے اس تقسیم کو رائج رکھنا چاہتے ہیں. جس تقسیم کی شروعات برطانوی راج میں ہوئی تھی. احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور اس کے بعد ان کے خلاف بننے والے قوانین نے جو کمیونل فسادات برپا ہوۓ ان کے باعث ہزاروں کی تعداد میں احمدی پاکستان سے دیگر ممالک ہجرت کر گئے. یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کے جب بھی کوئی کسی ملک سے ہمیشہ کے لئے منتقل ہوتا ہے تو وہ اپنا سرمایا بھی ساتھ لے کر جاتا ہے جس سے ملکی معیشیت کو نقصان ہوتا ہے.
UNHCR کے مطابق 2013 میں پاکستان سے 1489 لوگ سری لنکا منتقل ہوۓ جن میں بڑی تعداد عیسائیوں اور احمدیوں کی ہے.
آج ماڈل ٹاؤن حادثے میں 14 لوگوں کی اموات پر ملک کے دارلحکومت میں دھرنا جاری ہے اور وزیراعلی پنجاب کے استفیٰ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے. ملک کے تقریباً سب ہی دانشور، ادیب اور میڈیا سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ریاستی دہشتگردی قرار دے رہی ہے. 2010 میں بھی ماڈل ٹاؤن میں احمدیوں کی ایک عبادت گاہ پر حملہ ہوا تھا جس میں درجنوں لوگ جاں بحق ہوۓ تھے مگر اس وقت کسی نے بھی دھرنا نہیں دیا تھا اور کسی دانشور نے اپنی زبان اور قلم کا استعمال اس طرح نہیں کیا تھا. (ایسے کئی حادثات پر خاموشی کی وجہ سے ہی میں اوپر یہ لکھ چکا ہوں کے بولنے اور لکھنے کی آزادی سلب ہے).
ایسے ہی کاروائیاں سندھ میں ہندوؤں کے خلاف جاری و ساری ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہندو سندھ سے نقل مکانی کر چکے ہیں، سندھ میں ہندو سب سے بڑے کاروباری جانے جاتے ہیں جن کا کاروبار لاکھوں سے شروع ہو کر اربوں تک جاتا ہے. لیکن ملک میں جاری کمیونل ازم کی فسادی لہر نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں. مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر رمیش کمار وانکانی نے قومی اسمبلی میں کو بتایا کے ہر سال پاکستان سے 5,000 ہندو نقل مکانی کرتے ہیں.
ایسا ہی کچھ ماحول سکھوں کے لئے بنایا جا رہا ہے تا کہ وہ بھی خود کو غیر محفوظ تصور کریں اور پاکستان سے دیگر ممالک کی طرف کوچ کر جائیں.
ہم ہمیشہ مہذب دنیا کی مثالیں دیتے ہیں لیکن ان کی تاریخ یا اپنی تاریخ سے ہم نے ہم نے کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کی. عیسائی دنیا خاص طور سے یورپ اس وقت سخت فرقوارانہ جنگوں میں الجھی جب مارٹن لوتھر نے کیتھولک مذہب چیلنج کیا اور اس کے نتیجے میں پروٹیسٹنٹ فرقہ وجود میں آیا. فرقوارانہ فسادات اس وقت اور شدّت اختیار کر گئے جب کیتھولک و پروٹیسٹنٹ فرقوں کو مختلف ریاستوں کی حمایت حاصل ہوئی. یا ایسا کہہ لیجئے کے فرقوارانہ ریاستوں کا قیام عمل میں آیا. فرانس کیتھولک رہا اور پروٹسٹنٹون کے خلاف رہا، انگلستان کا حکمران پروٹیسٹنٹ ہوگیا تو وہاں کیتھولک فرقہ دشمن بن گیا. خاص طور پر یورپ سولہویں صدی میں فرقوارانہ فسادات کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا. ان فسادات کی وجہ سے فرانسی معاشرہ ٹکرے ٹکرے ہو گیا.
معروف انگریز مورخ "ایچ اے ایل فشر" یورپ کی تاریخ میں لکھتا ہے کے "فرقوارانہ جنگوں نے فرانس کی صدیوں سے حاصل شدہ قومی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا. ایک شہر دوسرے شہر کا دشمن ہو گیا ایک خاندان دوسرے خاندان سے برسر پیکار ہو گیا لوٹ مار قتل و غارت گری اور توڑ پھوڑ روز مرہ کی زندگی کا معمول بن گئی. مذہب کے نام پر ذاتی دشمنیاں بھی بھگتائی گئیں.جب پورا فرانس جل رہا تھا تو دانشور اور اخلاقیات کے پیروکار خاموشی سے یہ سب تماشہ دیکھ رہے تھے".
یہی کچھ آج ہمارے ملک میں ہو رہا ہے شیعہ سنی کے نام پر قتل غارت، ہندو مسلمان کے نام پر قتل و غارت. اور بلکل سولہویں صدی کے یورپ کی طرح ہمارے حکمران ایک خاص فرقے کی پشت پناہی کرتے ہوے نظر آتے ہیں. جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہمارا معاشرے بکھرا ہوا نظر آ رہا ہے.
جس طرح فرقوارانہ فسادات کی وجہ سے فرانس سے پروٹیسٹنٹوں نے خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوۓ ہجرت کی تھی اسی طرح آج پاکستان سے نقل مکانی ہو رہی ہے جس سے معاشرہ غیر محفوظ اور معیشیت تباہ ہو رہی ہے. ملک سے باصلاحیت افراد دوسرے ملکوں میں پناہ لے رہے ہیں.
جس طرح اسپین اور فرانس سے ہنر مند افراد کی ہجرت سے دونوں ممالک ترقی کرنے کے بجاۓ تباہی کی طرف بڑھنے لگے تھے بلکل اسی طرح آج ہمارے ملک سے بھی ڈاکٹر، انجنیئر، تاجر طبقے اور ہنر مند لوگوں کی ہجرت سے ہم ترقی کے بجاۓ تباہی و بربادی کی جانب گامزن ہیں.
اسپین میں مسلمانوں کی عیسائیوں کے ہاتھوں سکشت کے بعد جب ان لوگوں نے مسلمانوں اور یہودیوں کے خلاف تحریک چلائی تو اسپین میں مقیم کثیر تعداد میں مسلمانوں اور یہودیوں کو ہجرت کرنی پر جس کا نتیجہ یہ نکلا کے اسپین ہزاروں دستکاروں، ہنر مندوں اور تاجروں سے محروم ہو گیا. 1462 میں انکوئیزیژن کے محکمے کو حرکت میں لایا گیا جس کے زریعے مسلمان، یہودی اور دیگر غیرعیسائیوں پر نظر رکھی جاتی تھی اور انھیں زبردستی عیسائی بنایا جاتا تھا یا قتل کر دیا جاتا تھا.
یورپ نے فرقہ واریت کے خاتمے کو ہی ترقی کا زینہ جانتے ہوۓ ایسے قوانین بناۓ جن میں ہر فرقے ہر مذہب کو مساوی حقوق حاصل ہوۓ. جس کی شروعات 1598 میں فرانس سے ہوئی جس نے کچھ قوانین (Edicts of Nante) بناۓ جس کے تحت فرانس میں پروٹسٹنٹوں کو مذہبی آزادی دی گئی، شہری حقوق میں مساویانہ برتاؤ کیا گیا. اس کے بعد آہستہ آہستہ قوانین بنتے گئے اور فرقہ وارانہ اور مذہبی فسادات تھم گئے.
پاکستان میں بھی اگر معیشیت کو مضبوط کرنا ہے تو سب سے پہلے فرقوارانہ، مذہبی اور لسانی فسادات کو روکنا ہو گا. یہ اس وقت ہی ممکن ہو سکے گا جب ریاست ایک فرقے کی نہیں ایک قوم کی نمائندگی کرے گی.
______________________________________________
لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر@tanvirarain کے نام سے لکھتے ہیں۔
______________________________________________