Thursday, 21 August 2014

انقلاب کا ترپ پتّہ

انقلاب کا ترپ پتّہ  

تنویر آرائیں


چلو جی اب ہم گاندھی کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں، اب کوئی بھی ٹیکس نہیں دے گا، بجلی اور گیس کے بل بھی نہیں دیں گے، ریاست کی "رام نام ستے ہے"، عمران خان صاحب نے اعلان کر دیا سو کر دیا، اور ہاں 48 گھنٹے ہیں میاں صاحب کے پاس استعفیٰ نہ دیا تو وزارت عظمیٰ کا بھی "انتم سنسکار".

خان صاحب تو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش میں لگ رہے ہیں، کیوں کہ سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان تو کبھی بانی پاکستان نے بھی نہیں کیا تھا، حالانکہ اس وقت تو ماحول اور صورتحال انتہائی گھمبھیر تھی.

1977 میں سول نافرمانی تجویز پیر پگارا، مولانا مفتی محمود، ولی خان، میاں طفیل محمّد، پروفسرغفور، نواب خیر بخش مری، سمیت دیگر کئی اہم سیاستدانوں کے سامنے اس وقت رکھی گئی تھی جب تقریباً 1200 لوگ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، پورا ملک جام پڑا تھا اور کئی شہروں میں مارشل لا نافذ تھا، اس وقت انہوں نے کہا تھا کے یہ ریاست سے بغاوت ہو گی، ریاست کا کوئی قصور نہیں ہے.

سول نافرمانی کی تحریک عموماً کولونیل طاقتوں یا مارشل لا حکومتوں کے خلاف چلائی جاتی ہے، جس کی دو مثالیں موجود ہیں، مہاتما گاندھی نے یہ تحریک برطانوی قبضے سے آزادی کے لئے چلائی تھی. جبکے 1919 کے مصر کے انقلاب میں بھی یہ تحریک برطانوی قبضے کے خلاف چلائی گئی تھی.

خان صاحب فرما رہے ہیں کہ بجلی اور گیس کے بل ادا نہیں کریں گے اور نہ ہی ٹیکس دیں گے، حضور والا پاکستان قوم پہلے ہی آپ کی تجویز پر عمل پیرا ہے.

تنخواہ دار بھی ٹیکس دینا نہیں چاہتے مگر بینک خود ہی ان کی تنخواہوں سے ٹیکس کاٹ لیتا ہے، ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی میں سے 1 فیصد سے بھی کم لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں.


ایک بین الاقوامی صحافی کا پاکستان میں ٹیکس کے حوالے سے ٹویٹ حاضر خدمت ہے:
https://twitter.com/khoureld/status/501051405105246208

خان صاحب فرما رہے ہیں کے یہ اسمبلی جعلی ہے تو ذرا سی جرات اور کریں اور کہہ دیں کہ اسی اسمبلی میں آپ کے جو ممبر حضرات ہیں وہ بھی جعلی ہیں، کیوں کہ ایسا تو نہیں چلے گا نا  کہ ن لیگ یا دیگر پارٹیوں کے ممبر جعلی جب کے اسی انتخابات کے زریعے سے آنے والے آپ کے اصلی!

پاکستان میں یہ دھاندلی دھاندلی والا کھیل خان صاحب نے ہی متعارف نہیں کروایا، یہ تو تقریباً اس ملک کے قیام سے ہی چلا آ رہا ہے، جو بھی ہارتا ہے وہ دھاندلی کا رونا رونے بیٹھ جاتا ہے. کسی کو دھاندلی کا رونا رونا چاہیے تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی ہونی چاہیے کیوں کہ خان صاحب جن سے مذاکرات کے لئے حکومت کے پیچھے پڑے ہوۓ تھے انہوں نے ان تین پارٹیوں کو انتخابی مہم ہی نہیں چلانے دی تھی.

پاکستان کے ساتھ اس وقت "بزکشی" کا کھیل جاری ہے (بزکشی کھیل پولو سے ملتا جلتا ہے، جس میں وحشیانہ حرکتوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے. اس کھیل میں گھڑ سوار کسی بچھڑے یہ بکرے کے دھڑ کو ایک دوسرے سے چھیننے کا مقابلہ کرتے ہیں، اس کھیل کے اصولوں کے مطابق کبھی اس دھڑ کو گھسیٹا جاتا تھا کبھی اٹھایا جاتا تھا) آج ریاست پاکستان اور اس کے سپریم ادارے وہ دھڑ بنے ہوۓ ہیں جس کو کبھی قادری صاحب چھینے کی کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے تو کبھی خان صاحب.

اس وقت جب خیبر پختونخواہ میں تقریباً دس لاکھ متاثرین بیٹھے ہوۓ ہیں اور بارش نے بھی کافی تباہی پھیلائی ہے تحریک انصاف کے وزیر اعلی اسلام آباد میں انٹرٹینمنٹ فرما رہے ہیں اور صوبے کی عوام کو بے یار و مددگار چھوڑا ہوا ہے کیا یہ نیا پاکستان ہے؟ یا ان کو سنبھالنے کے ڈر سے اسلام آباد آ بیٹھے ہیں؟

خان صاحب کا سارا زور مرکزی حکومت کو گھرانے پر ہے، اس کا مقصد کے صرف جن نشستوں سے ن لیگ جیتی ہے وہیں دھاندلی ہوئی ہے، جہاں کوئی اور جیتا وہاں سب فرشتے بیٹھے ہوۓ تھے، وہاں الیکشن کمیشن کا عملہ عمامہ پہنے ہاتھ میں تسبیح پکڑے بیٹھا تھا.

رہی بات جمہوریت کی تو اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ خان صاحب فرماتے ہیں 12 گھنٹے میں سوچتا رہا اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا جاۓ.

مطلب یہ فیصلہ خان صاحب کا اپنا ہے اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کا اس سے کوئی تعلق نہیں، جبکہ خان صاحب نے ان سے مشوره کرنا بھی گوارا نہیں سمجھا. ویسے تو خان صاحب کور کمیٹی کی بہت بات کرتے ہیں، اب کور کمیٹی کہاں گئی؟

خان صاحب فرماتے ہیں کے یہ لوگ الیکشن کمیشن خرید لیتے ہیں، شاید صاحب کو ڈر ہے کہ آئندہ انتخابات میں یہ ان سیٹوں سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں، شاید ایک لاکھ موٹر سائیکل کا دعویٰ خاک میں مل جانے کے بعد خان صاحب کچھ سنجیدہ ہو گئے ہیں، لیکن یہ میری غلط فہمی ہی ہو سکتی ہے، کیوں کہ خان صاحب کا 48 گھنٹوں بعد اسمبلی میں گھسنے والی دھمکی نے سارا پول کھول کے رکھ دیا ہے.

اگر اسمبلی یا وزیراعظم ہاؤس میں چند ہزار کارکنان گھسا کر ہی حکومت میں آنا ہے تو پھر ملک میں انتخابات کروانے کا کیا فائدہ آج آپ چند ہزار لوگ پارلیمنٹ ہاؤس میں گھسا کر وزیر اعظم بنے کل کوئی اور یہی عمل دوہراے گا اگلے دن کوئی اور کھڑا ہو جاۓ گا. پھر تو ملک میں انتخابات کے بجاۓ دھرنوں سے حکومتیں منتخب کی جائیں گی. واجپائی نے بھی کیا خوب جملہ کہا تھا کہ اتنی تو میں اپنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیر اعظم بدلتے ہیں.

پاکستانی عوام گزشتہ سال یہ امید لگا بیٹھی تھی کے ملک میں جمہوریت مستحکم ہو رہی ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار اقتدار کی منتقلی آئین و قانون کے مطابق ہوئی ہے، جبکہ چھینا جھپٹی کلچر کا خاتمہ ہوا ہے، ان کو امید تھی کہ اب ملک میں کچھ بہتری آئے گی اور عوامی منصوبات پر کچھ کام ہو پاۓ گا.

لیکن ابھی تو صرف ایک سال ہی گزرا کے ماضی کی طرح ٹانگ کھینچنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، ملک میں ایک بار پھر عدم برداشت، ہوس اقتدار اور غیر جمہوری جن بے قابو ہو گیا ہے. لیکن اس دفعہ اگر یہ جن اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو گیا تو میرے خیال سے ملک سے جمہوریت اب ایسا روٹھے گی کے منانے کے لئے اس بار پاپڑ بیلنے سے بھی کام نہیں چلے گا.

خان صاحب کو عام آدمی پارٹی سے سبق سیکھنا چاہیے، وہ بھی لوکل گورنمنٹ میں کامیابی حاصل کر کے مرکز کا خواب دیکھ رہی تھی اور اسی چکر میں استفیٰ دے کر گھر کو چلی گئے تھی، پھر اس کا حشر کیا ہوا سب جانتے ہیں. سندھی زبان میں ایک بڑی مشہور کہاوت ہے کہ؛

"سجی جے چکر میں ادھ بھی ونجاۓ ویھندے" (پوری کے چکر میں آدھی بھی گنوا بیٹھو گے).

دوسری طرف حکومت بھی ستو پئے نظر آتی ہے، ملک میں ایک مہینے سے جاری افراتفری سے نمٹنے کے لئے کوئی بھی حکمت عملی نظر نہیں آ رہی، ملکی ادارے مفلوج نظر آ رہے ہیں عوام حالت کسمپرسی میں مبتلا ہے، ملکی سرگرمیاں مفلوج ہو چکی ہیں اور کاروبار کو گھن لگ رہا ہے، اسحٰق ڈار کے بقول ان احتجاجوں کے باعث ملک کو 450 بلین کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا. مگر میاں صاحب بھولے بھیا بنے عوام سے پوچھ رہے ہیں کہ بھئی میرا کیا قصور؟

کم سے کم اتنا تو کر سکتے ہیں کے پارلیمنٹ کا جوائنٹ اجلاس بلا کے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیں، اور ایک آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ان صاحبان سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی وضع کریں.

یہ بلاگ ڈان اردو پر 19 اگست  2014 کو شایع ہو چکا ہے.

Thursday, 14 August 2014

انقلاب یا انتشار؟

انقلاب یا  انتشار؟

تنویر آرائیں


جو سامنے آئے اسے راستے سے ہٹا دو، جتھہ بن کے ان کے گھروں میں گھس جاؤ، کریک ڈاؤں کرو، پکڑ کے یہاں لے آؤ، تھانے جلا دو، ڈکیتی کے ملزمان کو آزاد کروا دو، دما دم مست قلندر.

گزشتہ کچھ روز سے ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی تحریک کے کارکنوں کو اکسانے کی تقاریر آخر کار رنگ لے آئیں. عوامی تحریک کے گلو بٹ پنجاب  پولیس پر جس طرح ٹوٹے یہ واضح پیغام ہے کہ ان کا نام نہاد انقلاب پر تشدد ہے.

ایک وقت تھا کہ لال مسجد سے کچھ لوگ لاٹھیاں اٹھاۓ نکلتے تھے اور باہر توڑ پھوڑ کرتے نظر آتے تھے. اس وقت ہماری عوام اور میڈیا زور زور سے چلانے لگی تھی کہ یہ کون لوگ ہیں، انہیں روکو، شہریوں کو ان کے شر سے بچاؤ.

آج ایک بار پھر لال مسجد کی  تاریخ دہرائی جا رہی ہے بلکہ اس بار تو یہ لوگ ان سے  بھی نمبر لے گئے. پولیس تھانے جلاۓ جا رہے ہیں، پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان کے گھروں میں گھسنے کی تلقین کی جا رہی ہے، دوسری طرف ہمارے میڈیا کے چند چینل عجیب سے تجزیے کرتے نظر آ رہے ہیں، کیا یہ  صرف اس لئے کہ پرویز مشرف کا ساتھ دینے والے اس بار انتشار پھیلانے والوں کا ساتھ دے رہے ہیں، جمہوریت کے علمبردار آج جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے در پر کیوں ہیں؟

طاہر القادری کے رکاوٹیں ہٹانے کے بیان کے بعد ڈنڈا بردار نمودار ہوئے اور پولیس کے ساتھ ٹکراؤ شروع ہو گیا. اس افراتفری کے دوران ایک پولیس وین بھی جلا دی گئ، کئی ایک پولیس اہلکاروں کو تلقین کے مطابق تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا.

حیرت کی بات یہ کہ وہ ڈنڈا بردار پوری تیاری کے ساتھ تھے، میڈیا رپورٹس کے  مطابق ان کے پاس بلیٹ پروف جیکٹس، پیٹرول بم اور آنسو گیس سے بچاؤ کے ماسک، غلیلیں اور کثیر تعداد میں کنچے (بلور) موجود تھے. جبکے پولیس ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس پر اکتفا کر رہی تھی. ان تمام پروڈکٹس کی موجودگی سے ان کا مقصد واضح ہو جاتا ہے.

لاہور سے پھیلتا ہوا یہ انتشار خوشاب تک پہنچ گیا جہاں تھانے کو  آگ لگا دی گئی اور ڈی ایس  سمیت 3 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنایا گیا، جبکے ٣ ڈکیتی کے ملزمان  رفو چکر ہو گئے، تھانے کو آگ لگانے کے بعد تھانے میں موجود ہتھیار بھی ہتھیا لئے گئے. ابتدائی رپورٹس کے مطابق پاکستان عوامی تحریک کے جن کارکنوں نے تھانے پر دھاوا بولا تھا وہ اسلحے سے لیس تھے.

 
سارا پاکستان دیکھ رہا ہے کہ کئی دنوں سے منہاج القران سیکریٹیریٹ میں کیا ہو رہا ہے اور وہاں سے کیسے کیسے بیان سامنے آ رہے ہیں. جب لیڈران ہی کارکنوں کو انتشار پھیلانے کی تلقین کریں گے تو باقی رہ کیا جاتا ہے؟ ایک طرف ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس اٹھاۓ پولیس اور دوسری جانب پیٹرول بموں سے لیس لوگ، انصاف آپ خود کریں.

عوامی تحریک کا ایک رہنما بیان دیتا ہوا نظر آتا ہے کہ کارکنوں کو کچھ ہوا تو وفاقی حکومت ذمّہ دار ہو گی، دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ کارکنوں کو واپس بلانے کے لئے نہیں کہا جاۓ گا. اس کا مطلب کارکنوں کو کچھ نہ کیا جاۓ، جو چاہے کرتے رہیں.

انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اگر کارکنوں پر آنے والی آنچ کی ذمّہ دار حکومت ہے تو اسی طرح پولیس کے زخمی ہونے، پولیس وین کو جلاۓ جانے، تھانے کو آگ لگانے، ڈی ایس پی اور پولیس  کو یرغمال بنانے، ہتھیار چھیننے اور افراتفری و انتشار پھیلانے کا ذمّہ دار ڈاکٹر قادری کو ٹھہرایا جاۓ اور ان تمام جرائم کی ایف آئ آر بھی ان پر داخل کی جاۓ.

بناسپتی انقلابیوں نے پاکستان کو تماشا بنایا ہوا ہے جس کا دل کرتا ہے منہ اٹھا کے چلا آتا ہے اور پاکستانی عوام کے لئے انقلاب برپا کرنے اٹھ کھڑا ہوتا ہے.

معروف صحافی و تجزیہ نگار رضا رومی صاحب سے اس حوالے سے جب میری بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا؛

"ڈاکٹر طاہرالقادری کے مطالبات اور حرکتیں مسائل پیدا کرنے والی ہیں، جبکہ  حکومت انتظامی معاملات سنبھالنے کے بجاۓ ان معاملات سے نمٹنے میں لگی لگی ہوئی ہے. جمہوریت میں احتجاج سب کا حق ہے لیکن احتجاج کے نام پر توڑ پھوڑ کے سلسلے سے  آنے والے دنوں میں تشدد اور عدم استحکام بڑھنے کے قوی امکانات ہیں. ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے حامیوں نے جو طریقہ کار اپنایا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے. قادری صاحب کو چاہیے کے وہ افراتفری نہ پھیلائیں اور اپنے کارکنوں کو قانون ہاتھ میں لینے سے روکیں، یہ طریقہ ان کے مقصد کو حاصل کرنے میں مدد فراہم نہیں کرے گا".

آپ نے درست فرمایا رومی صاحب لیکن ان کا مقصد تو کچھ اور ہی لگتا ہے، جس میں سب کچھ جائز ہے.  

اس وقت افواج پاکستان ملک دشمنوں کے خلاف پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور یہ حضرت حکومت اور عوام کا دھیان بھٹکا کر ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر تلے ہوئے ہیں، مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ کیسے 'شیخ الاسلام' ہیں جو مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا رہے ہیں. آخر یہ کیسا انقلاب ہے جو ملک کے اداروں کو آگ لگا رہا ہے.

پاکستانی عوام کا اگر اتنا ہی احساس تھا تو پچھلے سال مزاکرات کر کے بھاگ کیوں گئے؟

اور اگر عوام آپ کے ساتھ ہے تو انتخابات میں حصہ کیوں نہیں لیا؟ آپ انتخابات میں حصہ لے کر نظام درست کرتے نا، اس طرح سڑکوں پر چند ہزار مسلح کارکن نکال کر آپ پاکستان کی اکثریت کو آخر کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ ملک کی عوام کو ایک دوسرے سے لڑوا کر آپ کونسا انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں؟

حکومت گرانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہےمارشل لا، جو قادری صاحب کا من پسند ہے، ایک بار پہلے بھی حضرت فوجی ڈکٹیٹر کا ساتھ دے چکے ہیں اور جمہوری حکومت کی بساط لپیٹنے میں اپنا کردار ادا کر چکے ہیں.

عوام ان کی "جی ڈی اے" کو نہیں بھولی اور نہ ہی ان کی ریفرنڈم کے لئے دی جانے والی خدمات کو بھولی ہے. اس وقت نظام درست کرنے اور ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کا خیال ان کے دماغ میں نہیں آیا؟

اب جبکہ ملک میں ایک جمہوری حکومت قائم ہے تو ان کو دوبارہ نظام اور جمہوریت کا خیال آ گیا، یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ "نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی". یہ ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کا دورہ جمہوری حکومتوں میں ہی کیوں پڑتا ہے؟  

مارشل لا پاکستان کی عوام کو کسی صورت قبول نہیں لہٰذا قبلہ سے گزارش ہے کہ انتظار کریں اور چار سال بعد کینیڈا کی شہریت ترک کر کے  پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لیں اور کامیابی کی صورت میں پارلیمنٹ میں بیٹھ کر نظام ٹھیک کریں.

یہ بلاگ 13اگست 2014 کو ڈان اردو پر شایع ہو چکا ہے.

Wednesday, 6 August 2014

پاکستان یا متاثرستان

پاکستان یا متاثرستان   

تنویر آرائیں


ہٹ جاؤ، ایک طرف کو ہو جاؤ، راستہ دو، پھر نہیں کہنا کچلے گئے، زخمی ہو گئے، لگ گئی، ارے بھئی انقلاب آ رہا ہے ہوشیار باش!


انقلابیے اور تبدیلیے ملک میں سرگرم ہیں، لہٰذا عوام سے گزارش ہے کہ اپنے سامان کی حفاظت خود کریں ورنہ طعنے مت دینا کہ یہ ہو گیا وہ ہو گیا.


کیا کہا، حکومت؟ ارے بھائیو وہ آپ کی حفاظت کیسے کرے گی جو اپنی ہی حفاظت نہیں کر پا رہی، وہ تو بیچارے خوف کے مارے ادھر ادھر بھاگ دوڑ میں لگے ہوۓ ہیں کہ کہیں سے ان حکومت خور انقلابیوں اور تبدیلیوں کو روکنے کا توڑ مل جاۓ.


دیکھا نہیں کیسے مارے مارے سندھ میں بیٹھے انقلاب توڑ پیر کے پاس پہنچ گئے تھے اور پھر پاکستان کو چلانے والی دائی کے پاس، اب دو سو آموں کی پیٹیاں لے کر رشتےداروں سے ملنے.


دیکھو نا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ایک طرف تو ملک میں جاری توانائی کے بحران پر قابو پانا مشکل ہے، جس پر ضابطے کے لئے عوام کو بارش کی دعاؤں پر لگا دیا ہے. دوسری طرف انقلابیے اور تبدیلیے اپنی اپنی مرلیاں بجا بجا کے میاں صاحبان کا جینا مشکل  کیے جا رہے ہیں.


اب ایسا بھی کیا ہو گیا جو اگر میاں صاحبان کے انتخابی نعرے پورے نہیں ہوئے، ہاں ہاں انہوں نے کہا تھا کہ بجلی کا بحران چھ مہینوں میں، پھر ایک سال، بعد میں ڈیڑھ سال میں ختم نہ کیا تو اسکا نام بدل دینا، اب ٹھیک ہے جوش خطابت میں کہہ ہی دیا تو کیا "کیا بچے کی جان  لو گے"!؟


اس سے پہلے آنے والے کون سا عوام سے کیے ہوئے وعدے پورے کرتے رہے ہیں، انہوں نے نہیں کیے تو کیا قیامت برپا کر دی.

جی بالکل! انہوں نے زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کی تھی، ابھی وقت ہی کتنا ہوا ہے ان بیچاروں کی حکومت کو بنے ہوئے، صبر تو کرو سب ہو جاۓ گا، اگلی حکومت میں، ارے بھئی اب انقلاب توڑ پیر کے پاس چلے ہی گئے تو کیا غلط کر دیا؟


دیکھو یار پچھلی دفعہ جب انقلابی کنٹینر آیا تھا تو انہوں نے بھی تو پورے ملک کی اپوزیشن اکٹھا کی تھی نا حکومت بچانے کے لئے، تو اب کیا ان کو میاں صاحبان کا ساتھ نہیں دینا چاہیے؟


جی مجھے یاد ہے کہ میاں صاحب نے 5 جون 2013 کی تقریر میں فرمایا تھا کے اقربا پروری اور بے جا نوازشات کا باب بند کر دیں گے، چلو خیر ہے جو انہوں نے اپنے دو درجن رشتےداروں کو بڑی منسٹریاں اور خاص عہدے دے کر نواز ہی دیا، بھلا حکومت میں ہوتے ہوئے اپنوں کو نوازیں بھی نا؟


دیکھیں بھائی تبدیلی یہ ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے اپنے ہاتھوں سے  167 بلین واپس جانے دیے یا 35 بلین ڈولپمینٹ کے لیپس ہو گئے، اب بھلا جب دھاندلی کی حکومت مرکز میں ہو یا پورے پاکستان میں سواۓ خیبر پختونخوا کے، تو بھلا پیسوں کو ترقیاتی کاموں میں خرچ کر کے کیا فائدہ، دوسری بات یہ کہ اگر یہ پیسا ہوتا تو دھیان وہیں لگا رہتا، ایسے میں جلسوں کا کیا ہوتا؟ ظاہر ہے ٹھیک نتیجہ  نہیں دے پاتے نا، پھر بھلا حکومت کیسے جاتی؟

کیا! متاثرین کی بات کررہے ہو؟


اب یہ بھی کوئی بات ہے کرنے والی، ایویں ہر بات کو اشو بنا لیتے ہو پہلی بات کہ پاکستان بننے سے لیکر اب تک کتنے حادثات و قدرتی آفات کے نتیجے میں لوگ متاثر ہوئے ہیں؟ کیا سب کو حکومت سمبھالتی رہی ہے؟


یاد کرو گزشتہ حکومت میں آنے والے سیلاب اور بارشوں میں جو لوگ متاثر ہوئے تھے ان کو راشن کے نام پر کیسے لاٹھیاں پڑیں تھیں اور راشن کارڈ کیسے ملے تھے. تھر کو کیا بھول گئے جس میں اعلانات تو ہوئے تھے ملا کیا یہ آج تک پتا نہیں چل سکا. اس حکومت میں متاثرین کو لاٹھیاں تو نہیں نہ پڑیں، اب اگر دو چار متاثرین کو پولیس والوں نے بلیک میل کر کے لوٹ ہی لیا تو اتنا ہنگامہ کرنے کی کیا ضرورت ہے، دوسری بات یہ کے خیبر پختونخوا حکومت جو کر رہی ہے وہ اس کی مہربانی ہے، وزیرستان ان کے انڈر تھوڑی نہ آتا ہے.


ایک بات اور، اس ملک میں تو متاثرین ہی متاثرین ہیں ایک حکومت کس کس کو سنبھالے؟


کوئی پولیس سے متاثر، کوئی عوامی نمائندوں سے متاثر، کوئی وڈیروں جاگیرداروں سے متاثر تو کوئی بھوک، بیروزگاری، دہشتگردی، بھتے کی پرچوں سے متاثر، صحت کی سہولیات، تعلیمی نظام سے متاثر اب بھلا کس کس متاثر کو سنبھالا جاۓ، ایسا لگتا ہے یہ ملک متاثر خانہ ہے.


رہی بات قادری صاحب کی تو یار پاکستانی عوام بھی بڑی احسان فراموش ہے. اس قوم کے نصیب کو سنوارنے کے لئے وہ کینیڈا سے یہاں تک تشریف لاۓ یہ کیا کم ہے؟ کیا ہوا جو پچھلی بار مزاکرات کر کے چلے گئے، کوئی پہاڑ تو نہیں ٹوٹ گیا اور کیا آپ آئین وائن کی باتیں کر رہے ہو مولانا صاحب نے اتنی کتابیں لکھی ہیں کیا آئین پر ایک آدھ کتاب نہیں لکھ سکتے؟  

دیکھو بھائیو گزشتہ کئی دہائیوں سے آپ انقلاب دیکھتے آئے ہو، کبھی مارشل لا لگا کے انقلاب لایا گیا، کبھی سول مارشل لا نافذ کر کے، کبھی آئی جے آئی بنا کے، کبھی لاشیں گرا کے، کبھی مادر ملت کو ہرا کے، تو کبھی جہازوں کو ہائی جیک کرا کے.

اس کے علاوہ بھی کئی انقلاب اس ملک میں برپا ہوتے رہے ہیں مثال کے طور پہ دہشتگرد بنا کے، کیمپوں میں بھوکا مروا کے، یا پاکستان تڑوا کے. اب اتنے انقلاب تو دیکھ چکے ہو ایک آدھ نئی قسم کا انقلاب اور آ رہا ہے تو چیخ  پکار کیسی.


دیکھو بھئی انقلاب توڑ پیر کا نام تو مت لینا، اگر انہوں نے کہہ ہی دیا ہے کہہ میاں صاحب کو وزیراعظم بنایا ہے بادشاہ نہیں تو اس بیان کو اتنا سنجیدگی سے نہ لیں آخر تحریک انصاف کو 14اگست والی دھما چوکڑی سے روکنے کے لئے میاں صاحب کی مخالفت تو کرنی ہے نہ، اب اس کے لئے پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما کو لگا دیا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے. اگر ایسا نہیں کریں گے تو آپ لوگ کہو گے کے جی انہوں نے "چارٹر آف ڈیموکریسی" پر عمل نہیں کیا.


آپ خوامخواہ حکومت پر تنقید کیے جا رہے ہیں، کتنا کام کر رہی ہے حکومت، دیکھو ڈالر 98 پر لے آئی. اب حکومت کیا کرے اگر اشیاء کی قیمتوں میں کمی نہیں آئی یا عوام کو ریلیف نہیں ملا.

آلو مہنگے ہو گئے تو شور مچا رہے ہو آلو نہیں ہیں، بھئ  شکر قندی کھا لو، آخر ملک مسائل میں گھرا ہوا ہے کچھ تو کمپرومائز آپ کا بھی فرض بنتا ہے نا، شاہ صاحب نے پچھلی حکومت میں نہیں کہا تھا کہ ڈبل روٹی سے کام چلاؤ.


بجلی کے لئے دیکھو نندی پور سمیت کتنے پروجیکٹ لگاۓ جا رہے ہیں اب یہ اور بات ہے کے افتتاح کے دو دن بعد وہ بند ہو گیا اب میاں صاحب خود تو نہیں جا کے مشینیں ٹھیک کر سکتے.

عابد شیر علی بیچارے کا دیکھو کیا حال ہو گیا ہے، گرمی میں اس کا رنگ بھی پھیکا پڑگیا ہے، اتنا کام تو کر رہا ہے اب اگر آپ کو فرق محسوس نہیں ہو رہا تو کیا وہ کھمبوں پر چڑھ جاۓ؟


خواجہ سعد رفیق بھی تو ٹرینوں کی مرمت اور سسٹم میں بہتری کے لئے کوشاں ہے اب انجن خود کھولنے سے تو گیا، یہ کام کرنے لگ جاۓ گا تو تبدییلے اور انقلابیے کو جواب کون دے گا.


اتنے بڑے بڑے کام کر تو رہی ہے حکومت؛ دیکھو میٹرو بھی دے رہے ہے گرین لائن بھی، اب اگر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں لوگ چنگچی میں ٹھس ٹھس کر سفر کر رہے ہیں تو اس میں حکومت کا کیا قصور؟

یہ بلاگ 2 اگست 2014 کو ڈان اردو پر شایع ہو چکا ہے.