Saturday, 28 June 2014

شیخو کی بھینس 

تنویر آرائیں

شیخو اپنی بھینس کو لے کر بہت پریشان تھا جو بہت بیمار تھی، طرح طرح کے ٹوٹکے آزما رہا تھا مگر بھینس ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی، آخر کار جب سب ٹوٹکے بیکار دکھائی دینے لگے تو شیخو نے شہر کا رخ کیا اور ایک طویل سفر طے کر کے شہر میں موجود ڈنگر ڈاکٹر کے پاس پہنچا، ڈاکٹر کو ساتھ لیا اور گاؤں واپس آیا.
ڈاکٹر نے بھینس کا معائنہ کر کے شیخو کو دوایاں دیں اور تلقین کی کہ دوائیاں صحیح وقت پر دی جائیں، ذرا سی بھی غفلت جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے، یہ سننا تھا کہ شیخو بے حد پریشان ہو گیا، اس نے اپنا سونا کھانا پینا اور دیگر مصروفیات ترک کر کے پوری توجہ بھینس پر مرکوز کر دی، آخر کار آہستہ آہستہ بھینس ٹھیک ہونے لگ گئی، اب شیخو بھی مطمئن ہو گیا، دیکھتے ہی دیکھتے بھینس پوری طرح ٹھیک ہو گئی.
مگر یہ کیا! شیخو یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ اس کی بھینس پہلے سے کہیں ذیادہ صحت مند دکھائی دینے لگی اور دودھ میں بھی اضافہ ہونے لگا تھا۔ وہ اس تبدیلی کے بارے میں کئی دن سوچتا رہا، پھر اس پر یہ راز افشاں ہوا کہ ٹھیک طریقے، محنت، لگن اور سچائی سے دیکھ بال کرنے سے ہی یہ سب کچھ ممکن ہوا ہے۔
شیخو صبح سویرے اٹھتا اپنے مویشوں کو چارہ ڈالتا، انہیں نہلاتا، پانی پلاتا اور ان کی صحت کا باقاعدگی سے خیال رکھتا تھا. اگر مچھر ہوتے تو سوکھا گوبر جلا کر دھونی دیتا۔ شیخو ہر وقت اپنے ذہن میں یہ بات رکھتا کہ اگر وہ اپنے مویشوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرے گا تو وہ اسے اچھی پیداوار دیں گے۔
ایک دن شیخو اپنے کسی دوست سے ملنے شہر گیا، وہاں اس نے دیکھا کہ اس کا دوست بہت پریشان تھا، وجہ دریافت کی تو پتا چلا کہ اس کا دوست جس گاڑی میں روزانہ آفیس جاتا تھا وہ بہت ذیادہ خراب رہنے لگی ہے، جس کی وجہ سے وہ پریشانی میں مبتلا ہے۔ شیخو نے بھی اسے اپنی پریشانی کے بارے میں بتایا کہ کیسے وہ اپنی بھینس کو لے کر پریشان تھا اور کس طرح اس کی بھینس ٹھیک ہو گئی اور اب حیرت انگیز پیداوار فراہم کر رہی ہے، اس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے کس طرح سے بیماری کی حالت میں اپنی بھینس کی سیوا کی تھی۔
'پڑھا لکھا' دوست شیخو کی باتوں کا مذاق اڑانے لگا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ یہ میں اپنی گاڑی کی خرابی کی وجہ سے ہونے والی پریشانی کا تذکرہ کر رہا ہوں اور یہ ان پڑھ گنوار بیچ میں بھینس کو گھسا بیٹھا، بھلا گاڑی کا بھینس سے کیا تعلق؟
خیر شیخو اس سے مل کر واپس اپنے گاؤں چلا گیا، دوسرے دن شیخو کا دوست گاڑی لینے مکینک کے پاس گیا تو اس نے اسے مشورہ دیا کہ گاڑی کے تیل پانی کا خیال رکھا کرے اور ایسا نہ کرنے کی وجہ سے ہی اس کی گاڑی خراب ہو جاتی ہے۔ وہ گاڑی لیکر واپس آ گیا.
رات کو جب وہ اپنے بیڈ پر آرام سے لیٹا ہوا تھا اسے پھر شیخو کی باتیں یاد آئیں، وہ زور زور سے ہنسے لگا تو اس کی بیوی نے پوچھا کہ آپ کیوں ہنس رہے ہو تو انہوں نے اپنے ان پڑھ گنوار دیہاتی دوست کا قصہ سنایا اور پھر زوز زور سے ہنسنے لگا.
بیوی نے تھوڑی دیر بعد دوسرا سوال کیا کہ گاڑی میں خرابی کیا تھی، مکینک کیا کہتا ہے؟ تو اس نے مکینک کا مشورہ بتایا، بیوی ہنسنے لگی۔ اس نے حیرت سے پوچھا اب تم کیوں ہنس رہی ہو؟
بیوی نے جواب دیا کہ تم اپنے جاہل دوست کی باتوں پر غور کرو، مکینک کے پاس جانے اور اس کا مشورہ سننے سے پہلے ہی تمہارا دوست تمہیں یہ مشورہ دے گیا تھا۔ جسے تم جاہل کہہ رہے ہو وہ تم سے بہت ذیادہ ذہین ہے۔
دوست نے شیخو کا مشورہ پلے باندھ لیا، اب وہ زوزانہ صبح آفس جانے سے پہلے اپنی گاڑی کا تیل پانی چیک کرتا، کمی کی صورت میں اسے پورا کرتا، ٹائیرز کی ہوا چیک کرواتا، اب اسے بار بار کی پریشانی نہیں ہوتی تھی، کیوں کہ گاڑی اب خراب نہیں ہوتی تھی۔
یہ تو تھا شیخو اور اس کے دوست کا قصہ، لیکن ہمارے وطن عزیز میں نہ تو کوئی شیخو ہے اور نہ ہی اس کا دوست، تو بھلا حالات کیسے ٹھیک ہوں گے؟
روز بروز بڑھتی مہنگائی، بھوک، بیروزگاری، لاقانونیت، کرپشن اور دہشتگردی کی بیماری ہمارے جسموں کو کوڑھ کے مرض سے بھی ذیادہ بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ ہمارے ملک کو آذادی سے لے کر اب تک کوئی بھی شیخو نہیں مل سکا ہے، آج تک برسر اقتدار رہنے والوں میں کوئی فالج زدہ، کوئی بھوک کا مارا ہوا، کوئی سرمایا اکٹھا کرنے کی ہوس میں مبتلا، کوئی اقتدار کے ہاتھوں مجبور تو کوئی مارشل لا کا پروردہ، جس کی وجہ سے اس ملک میں رہنے والی مخلوق شیخو کی بھینس سے بھی ذیادہ لاچار و بے بس نظر آتی ہے.
ہمارے حکمران اقتدار کے نشے میں دھت اپنی قوم کو بھول بیٹھے ہیں، ان کی نظر میں یہ قوم جانور بھی نہیں کیوں کہ جو لوگ جانور پالتے ہیں وہ ان کا خیال ہمارے ملک کے حکمرانوں سے اچھا رکھتے ہیں۔
حکمرانوں کی اس روش کا اگر تاریخی تجزیہ کیا جائے تو بھی ہمیں اپنی تاریخ میں لوٹ کھسوٹ کے حامی ہی ملیں گے. مسلم فتوحات کو دیکھا جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ جو بھی فاتح آئے، ان میں اکثریت لوٹ مار کو ہی اپنا فریضہ سمجھتے رہے. خاص طور پر برصغیر میں ایسے شواہد بڑی کثیر تعداد میں ملیں گے۔
حصول اقتدار کے بعد کسی نے کھوپڑیوں کے مینار بنوائے، کسی نے باپ کو اندھا کروایا، تو کسی نے بھائیوں کو قتل کروایا۔ یہی کچھ پڑھنے کو ملے گا۔ ہماری تاریخ میں جہاں بھی جس لحاظ سے بھی مطالعہ کریں تو جب معاش کی بات آتی ہے تو دو وقت پیٹ بھر کر کھانے کا ہی تذکرہ ہوتا ہے، اس سے ہم تاریخی طور پر عام آدمی کی ہر دور میں معاشی حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں.
اس بات سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عام لوگوں میں تیں وقت کے کھانے کا تصور بھی نہیں پایا جاتا اور تاریخی طور پر یا ایسا کہہ لیں کہ ہم ہی نہیں ہمارے آباؤ اجداد بھی دو وقت کے کھانے پر اکتفا کرتے تھے. جسے دو وقت کا کھانا میسر ہے وہ دوسروں کی نظر میں بہتر ہے اور تھا۔
اپنی طاقت کو ظاہر کرنے کے لیے ہم ایک دوسرے کی گردنیں اکھاڑنے میں مہارت رکھتے ہیں، چاہے تیمور اور یلدرم کو لے لیں یا سلاطین دہلی یا جدید تاریخ میں عراق، ایران کی جنگ کو لے لیں۔
طاقت کے نشے میں دھت عرب اسپین تک پہنچ گئے تھے، اب اسی نشے میں چور امریکہ ساری دنیا میں دندناتا پھر رہا ہے۔ باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو سب کا مقصد ایک ہی رہا ہے، نہ ہی کوئی جمہوریت کے لئے کہیں گھسا اور نہ ہی دین کی خدمت کے لئے، مقصد ہمیشہ تیل کے کنویں ہڑپنا یا سونے کی مورتیاں ہتھیانا ہی تھا، ہاں اس مقصد کے لیے کہیں دین کو استعمال کیا گیا تو کہیں سسٹم کو۔
ان پرانی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے آج بھی ہمارے سیاستدان الیکشن کو جنگ سمجھ کر لڑتے ہیں، انتخابات میں بھرپور طاقت کا استعمال ہوتا ہے اور جو فتح حاصل کرتا ہے وہ پاکستان کے اداروں اور عوام کو مال غنیمت سمجھتا ہے، تخت و تاج حاصل کرنے کے بعد پھر وہی تاریخ مدنظر رکھتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور اداروں کو لوٹنے اور مال غنیمت میں ملے عوام نما غلاموں (یا غلام صفت عوام؟) کو بڑی مہارت سے استعمال کرتا ہے، ٹھیک ویسے ہی جیسے رومن دور میں کیا جاتا تھا، امیر طبقہ ان سے بغیر معاوضہ محل تعمیر کرواتا تھا اور سخت محنت ومشقت کے باوجود انہیں کوئی انعام میسر نہیں ہوتا تھا ۔
آج بھی عوام اپنا خون پسینہ ملک کے لیے دے رہی ہے اور حکمران اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ کیوں کے وہ باخبر ہیں کہ اگلے پانچ سال میں پھر کوئی اور فاتح آۓ گا اور تخت و تاج اس کے پاس چلا جاۓ گا، لہذا پانچ سال میں جو کچھ سمیٹ سکتے ہیں سمیٹ لیں۔

بد قسمتی سے پاکستانی عوام کو پالتو جانور یا مشینری جتنی بھی سہولتیں میسر نہیں، نہ ہی اس ملک میں کوئی شیخو جیسا حکمران آج تک دیکھنے کو ملا ہے، اسے قوم کی بدنصیبی کہیے یا کچھ اور اس کا فیصلہ بھی عوام ہی کر سکتی ہے ….. قوم کو اس وقت شیخو کی ضرورت ہے
یہ بلاگ ڈان اردو میں ٩ جون ٢٠١٤ کو شایع ہو چکا ہے 


مظلوم طالبان 

سرزمین پاکستانی میں قتل و غارت گری کوئی نئی بات نہیں، قیام پاکستان سے پہلے بھی یہ سلسلہ جاری تھا اور اب بھی زور و شور سے جاری ہے، ہاں وقت کے ساتھ ساتھ نمونہ بھی جدید ہوتا چلا آیا ہے۔
اس قتل و غارت میں ہمیں کئی ممالک معاشی و عسکری مدد فراہم کرتے رہے ہیں۔ جن میں امریکا، سعودی عرب اور ایران سر فہرست ہیں، جو اپنے اپنے فرقے / مفادات کے فروغ کے لیے عسکری قوت کے استعمال کو بہترین نمونہ تصور کرتے ہیں۔
یہاں ایک بات کہنا اہم ہے کہ زبردستی ہم کسی کو منافق تو بنا سکتے ہیں، مومن نہیں، جس کا عملی نمونہ ہم فوجی آمر ضیاءالحق کے دور میں دیکھ چکے ہیں جن کے جلوہ افروز ہوتے ہی بیوروکریسی اور سیاست کے بڑے بڑے نام بغیر وضو نماز پڑھنا شروع ہو جاتے تھے۔
انجمن سپاہ صحابہ بنتے ہی ملک میں فرقہ واریت کی ایک نئی دوڑ شروع ہوگئی تھی جو آہستہ آہستہ مجاہدین کا تکلیف دہ سفر طے کرتی ہوئی طالبان تک آ پہنچی ہے۔ اس سفر میں مظلوم طالبان کو ہزاروں ظالم لوگوں کی لاشوں سے گزرنا پڑا ہے اور کئی مظلوم طالبان بھی اپنی قیمتی جانیں گنوا چکے ہیں، لیکن بڑی تعداد ان ظالم لوگوں کی ہے جن میں کوئی سامان ڈھونے والا، کوئی جوتیاں گانٹھنے والا، سبزی فروش، متوسط طبقے کا سفید پوش، حصول علم کے لیے اسکول جانے والا بچہ، بوڑھے بزرگ یا کمزور دل کی خواتین ہیں۔
یہ طبقے بڑے ہی ظالم ہیں جو ان مظلوم لوگوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ظالم لوگوں میں کچھ پولیس افسران، کچھ سیاستدان ، سفارتکار، ڈاکٹر، انجینیر اور بزنس مین بھی شامل ہیں۔ وہ صحافی جو ان شریف لوگوں کے خلاف لکھتے ہیں وہ بھی اگنی سنسار یا گولیوں کی بوچھاڑ کی ضد میں آجاتے ہیں.
یہ 'مظلوم طبقہ' کہتا ہے کہ وہ جہاد کر رہا ہے اور یہ ظالم سماج ان کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے۔ یہ وہی جہاد ہے جس کی فضیلت بیان کرتے ہوُے لشکر طیبہ کے امیر صاحب گلی کوچوں سے اکٹھے کیے ہوے نوجوانوں کو بتاتے ہیں کہ بعد از شہادت ان کا رتبہ کیا ہوگا، جنت میں ان کو ستر منزہ و پاکیزہ اور انتہائی خوبصورت حوریں، ایک ملکہ حور، ہیرے جواہرات سے بنا ہوا تاج پہنایا جاۓ گا اور خاندان کے ستر لوگ شہید کے کوٹا پر جنت میں داخل ہو جائیں گے۔
تو بھئی جن عظیم ہستیوں کو بقول امیر لشکر طیبہ اللہ پاک اتنے انعامات سے نوازے گا ان کی راہ میں روڑے اٹکا کے ہم نعوذ بااللہ اپنے رب کے کام میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں، اور ان مظلوم لوگوں کو ہم دہشتگرد بھی کہہ رہے ہیں، یہ تو سراسر ناانصافی ہے حضور!
یہ حضرات تو کمال کا کام کر رہے ہیں، اس کام پر تو یہ انعام کے حقدار ہیں اور ہم بیوقوف لوگ انہیں دہشتگرد، شدت پسند انسانیت کے دشمن … اور پتا نہیں کیا کیا کہتے ہیں، نا جی نا! ان کے تو گلے میں پھولوں کے مالا ڈالنی چاہیے جو ہمارے بچوں بوڑھوں، خواتیں کے چیتھڑے اڑاتے ہیں۔ امام بارگاہوں، مسجدوں، مزارات کو خون میں نہلاتے ہیں، خود کو صحیع ثابت کرنے کے لیے دلیل کے بجاۓ دھماکہ خیز مواد کا استعمال کرتے ہیں۔
ہمیں امریکی و مغربی پٹھو کہنے والوں نے ہی دراصل ان کے ہاتھوں بکنے کی شروعات کی تھی، یہ مظلوم لوگ کیا بھول چکے ہیں کہ ان کے امیروں نے امریکہ کی مدد کرتے ہوئے ہی افغانستان میں انٹری دی تھی اور امریکہ سے ان کو اسلحہ اور ڈالرز ملتے تھے؟
میرے پیارے مظلوم بھائیوں! پاکستان کی عوام کو اس جہنّم میں جھوکنے والے آپ کے بڑے تھے، فرقہ واریت سے شروع کیا گیا یہ سفر طویل سے طویل ہوتا ہوا پاکستان کے کونے کونے میں وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے اور یہ وبا کینسر سے بھی مہلک ثابت ہو رہی ہے۔
دہشتگردی کو اگر ہم تاریخی تناظر میں دیکھتے ہیں تو اسلامی تاریخ میں ہمیں اس کی مثال اسماعیلی فرقے کے بانی حسن بن صباح کے ہاں سے ملتی ہے۔ جس نے فدائین کی ایک جماعت کو منظم کیا تھا۔ جب ان کی جماعت کے خلاف حکومت اور علماء نے اقدامات کیے تو انہوں نے ٹارگیٹ کر کے اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں کو نشانہ بنایا تھا۔ جن میں سلجوقی وزیراعظم نظام الملک طوسی،عباس خلیفہ مسترشد، سلجوقی سلطان داؤد اور ابوالحسن قزوین کا مفتی اور دیگر کچھ اہم لوگ شامل ہیں۔
معروف مورخ و محقق ڈاکٹر مبارک علی دہشتگردی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں؛
"دہشتگردی کی تاریخ میں کوئی ایک قسم نہیں رہی ہے بلکہ یہ وقت، ضرورت اور حالات کے تحت بدلتی رہتی ہے۔ مثلا ایک مرحلہ میں دہشتگردی کا استعمال صرف افراد کے خلاف ہوا کرتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بادشاہ یا حکمران مطلق العنان ہوتے تھے ۔اس لیے یہ خیال کیا جاتا تھا کی اگر انہیں راستے سے ہٹا دیا جائے تو اس صورت میں ان سے نجات مل سکتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آمرانہ طرزحکومت کے باعث لوگ ان سے تنگ آ کر ہتھیار اٹھا لیتے تھے اور ان کا قلعہ قمعہ کرنے میں ہی اپنی نجات دیکھتے تھے۔
دہشتگردی کی دوسری شکل میں وہ مذہبی، سیاسی اور سماجی تنظیمیں ملوث ہوتی تھیں جو ریاستی و حکومتی دہشت گردی شکار ہوتی تھیں۔ لہذا اپنے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کے ردعمل میں یہ ان افراد کے خلاف دہشت گردی کے اقدامات کرتی تھیں جو ان کی مصیبتوں کی ذمےدار ہوتے تھے۔
دہشتگردی کی تیسری قسم کولونیل ازم اور اس کے تسلط کے خلاف ابھری تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کولونیل طاقتوں نے اپنے دور میں نہ صرف اپنے مخالفیں اور مخالف تحریکوں کو سختی سے کچلا بلکہ ایسی پالیسیوں پر عمل کیا جو عوام کے خلاف تھیں۔ جس کی مثال پاکستان میں ہمیں ضیاءالحق کے دور سے ملتی ہے جس میں مخالفیں صحافی اور دیگر اہل شعور سرعام کوڑے کھاتے تھے، تحریک کا حوالہ دیا جائے تو ہم ایم آر ڈی کا حوالہ دے سکتے ہیں۔"
فرانزفینن نے کولونیل ازم کے خلاف تشدد اور دہشتگردی کی تحریکوں کو اس لحاظ سے اہم بتایا کہ ان کی وجہ سے غیر ملکی حکومتوں کا خوف ان کے دلوں سے جاتا رہا ۔اور اپنی آذادی کے لیے ان میں ہمت و جراءت پیدا ہوئی جس کے باعت وہ ان غیر ملکیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
دہشتگردی کو قابو کرنے کے لیے اٹھاۓ گئے اقدامات میں ہم انڈونیشیں حکومت کا تذکرہ کر سکتے ہیں جس نے بالی بم کیس میں اس کے ایک اہم ملزم امروزی کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا۔ اس پر ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی اور یہ امید ظاہر ہوئی کہ امروزی کو سزاۓ موت دی جانے کی صورت میں دہشتگردی اور اس کے پھیلے ہوۓ جال کا خاتمہ ہو جائے گا.
اسی طرح بیلجیم کی حکومت نے بھی ایک قانون کا اجراء کیا تھا، جس کے مطابق اگر کوئی بھی شخص انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف بیلجیم کی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔ اس قانون کی روشنی میں اسرائیل کے وزیراعظم شیرون اور امریکی جنرلوں پر انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمات درج ہوے۔ مگر واشنگٹن کے دباؤ کے تحت نو منتخب وزیراعظم نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ اس قانون کو جلد واپس لے لیں گے۔
بدقسمتی سے اوپر بیان کی گئی دہشگردی کی قسموں میں سے ایسی کوئی قسم نہیں جو پاکستان میں ہو بلکہ پاکستاں میں پائی جانے والی انوکھی دہشتگردی عجیب غریب فلسفہ یا گتھی ہے جس سلجھانا قدرے مشکل اس لیے بھی ہے کیوں کہ ہمارے ملک کے کئی سیاستدان ان مظلوم لوگوں کی ہی طاقت کو استعمال کر کے اقتدار تک پہنچتے آے ہیں اور پہنچتے رہے ہیں اور ان کے مفادات کو بھی مدنظر رکھتے ہوے اپنی پالیسی مرتب کرتے ہیں۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ ملک کے کئی بڑے شہروں میں ان جہادی گروپوں کے مراکز قائم ہیں مگر کوئی بھی ان کے خلاف کاروائی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ نے کبھی سنا کہ دنیا میں ایسا کوئی قصبہ ہے جس میں اخبارات و رسالوں کو پاک کر کے بھیجا جاتا ہو یقینا زیادہ تر نے ایسا کبھی سنا تو کیا تصور بھی نہیں کیا ہو گا، کیونکہ اخبار پاک یا پلیت کیسے ہو سکتا ہے، کاغد تو کاغذ ہے!
مگر پاکستان میں ایک ایسی بستی بھی موجود ہے جہاں اخبارات و رسائل پاک ہو کر جاتے ہیں اور ان کو اس طرح سے پاک کیا جاتا ہے کہ ان میں موجود تصویروں پر سیاہی پھیر کر مکمل طور پر نظر سے اوجھل کیا جاتا ہے، ہے نا انوکھا طریقہ اخبارات پاک کرنے کا!
اب یقینا یہ سوال ذہن میں ابھر رہا ہو گا کہ یہ علاقہ آخر پاکستان میں کہاں ہے تو عرض ہے کہ یہ علاقہ پنجاب کے سب سے اہم ترین شہر کے قریب پایا جاتا ہے، اس سے ذیادہ اس کے بارے میں میں اپنی زبان نہیں کھول سکتا۔
Published at Dawn.com on 02nd jun 2014

Battary Baz

Battary Baz

Saturday, 7 June 2014