شیخو کی بھینس
تنویر آرائیں
شیخو اپنی بھینس کو لے کر بہت پریشان تھا جو بہت بیمار تھی، طرح طرح کے ٹوٹکے آزما رہا تھا مگر بھینس ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی، آخر کار جب سب ٹوٹکے بیکار دکھائی دینے لگے تو شیخو نے شہر کا رخ کیا اور ایک طویل سفر طے کر کے شہر میں موجود ڈنگر ڈاکٹر کے پاس پہنچا، ڈاکٹر کو ساتھ لیا اور گاؤں واپس آیا.
ڈاکٹر نے بھینس کا معائنہ کر کے شیخو کو دوایاں دیں اور تلقین کی کہ دوائیاں صحیح وقت پر دی جائیں، ذرا سی بھی غفلت جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے، یہ سننا تھا کہ شیخو بے حد پریشان ہو گیا، اس نے اپنا سونا کھانا پینا اور دیگر مصروفیات ترک کر کے پوری توجہ بھینس پر مرکوز کر دی، آخر کار آہستہ آہستہ بھینس ٹھیک ہونے لگ گئی، اب شیخو بھی مطمئن ہو گیا، دیکھتے ہی دیکھتے بھینس پوری طرح ٹھیک ہو گئی.
مگر یہ کیا! شیخو یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ اس کی بھینس پہلے سے کہیں ذیادہ صحت مند دکھائی دینے لگی اور دودھ میں بھی اضافہ ہونے لگا تھا۔ وہ اس تبدیلی کے بارے میں کئی دن سوچتا رہا، پھر اس پر یہ راز افشاں ہوا کہ ٹھیک طریقے، محنت، لگن اور سچائی سے دیکھ بال کرنے سے ہی یہ سب کچھ ممکن ہوا ہے۔
شیخو صبح سویرے اٹھتا اپنے مویشوں کو چارہ ڈالتا، انہیں نہلاتا، پانی پلاتا اور ان کی صحت کا باقاعدگی سے خیال رکھتا تھا. اگر مچھر ہوتے تو سوکھا گوبر جلا کر دھونی دیتا۔ شیخو ہر وقت اپنے ذہن میں یہ بات رکھتا کہ اگر وہ اپنے مویشوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرے گا تو وہ اسے اچھی پیداوار دیں گے۔
ایک دن شیخو اپنے کسی دوست سے ملنے شہر گیا، وہاں اس نے دیکھا کہ اس کا دوست بہت پریشان تھا، وجہ دریافت کی تو پتا چلا کہ اس کا دوست جس گاڑی میں روزانہ آفیس جاتا تھا وہ بہت ذیادہ خراب رہنے لگی ہے، جس کی وجہ سے وہ پریشانی میں مبتلا ہے۔ شیخو نے بھی اسے اپنی پریشانی کے بارے میں بتایا کہ کیسے وہ اپنی بھینس کو لے کر پریشان تھا اور کس طرح اس کی بھینس ٹھیک ہو گئی اور اب حیرت انگیز پیداوار فراہم کر رہی ہے، اس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے کس طرح سے بیماری کی حالت میں اپنی بھینس کی سیوا کی تھی۔
'پڑھا لکھا' دوست شیخو کی باتوں کا مذاق اڑانے لگا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ یہ میں اپنی گاڑی کی خرابی کی وجہ سے ہونے والی پریشانی کا تذکرہ کر رہا ہوں اور یہ ان پڑھ گنوار بیچ میں بھینس کو گھسا بیٹھا، بھلا گاڑی کا بھینس سے کیا تعلق؟
خیر شیخو اس سے مل کر واپس اپنے گاؤں چلا گیا، دوسرے دن شیخو کا دوست گاڑی لینے مکینک کے پاس گیا تو اس نے اسے مشورہ دیا کہ گاڑی کے تیل پانی کا خیال رکھا کرے اور ایسا نہ کرنے کی وجہ سے ہی اس کی گاڑی خراب ہو جاتی ہے۔ وہ گاڑی لیکر واپس آ گیا.
رات کو جب وہ اپنے بیڈ پر آرام سے لیٹا ہوا تھا اسے پھر شیخو کی باتیں یاد آئیں، وہ زور زور سے ہنسے لگا تو اس کی بیوی نے پوچھا کہ آپ کیوں ہنس رہے ہو تو انہوں نے اپنے ان پڑھ گنوار دیہاتی دوست کا قصہ سنایا اور پھر زوز زور سے ہنسنے لگا.
بیوی نے تھوڑی دیر بعد دوسرا سوال کیا کہ گاڑی میں خرابی کیا تھی، مکینک کیا کہتا ہے؟ تو اس نے مکینک کا مشورہ بتایا، بیوی ہنسنے لگی۔ اس نے حیرت سے پوچھا اب تم کیوں ہنس رہی ہو؟
بیوی نے جواب دیا کہ تم اپنے جاہل دوست کی باتوں پر غور کرو، مکینک کے پاس جانے اور اس کا مشورہ سننے سے پہلے ہی تمہارا دوست تمہیں یہ مشورہ دے گیا تھا۔ جسے تم جاہل کہہ رہے ہو وہ تم سے بہت ذیادہ ذہین ہے۔
دوست نے شیخو کا مشورہ پلے باندھ لیا، اب وہ زوزانہ صبح آفس جانے سے پہلے اپنی گاڑی کا تیل پانی چیک کرتا، کمی کی صورت میں اسے پورا کرتا، ٹائیرز کی ہوا چیک کرواتا، اب اسے بار بار کی پریشانی نہیں ہوتی تھی، کیوں کہ گاڑی اب خراب نہیں ہوتی تھی۔
یہ تو تھا شیخو اور اس کے دوست کا قصہ، لیکن ہمارے وطن عزیز میں نہ تو کوئی شیخو ہے اور نہ ہی اس کا دوست، تو بھلا حالات کیسے ٹھیک ہوں گے؟
روز بروز بڑھتی مہنگائی، بھوک، بیروزگاری، لاقانونیت، کرپشن اور دہشتگردی کی بیماری ہمارے جسموں کو کوڑھ کے مرض سے بھی ذیادہ بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ ہمارے ملک کو آذادی سے لے کر اب تک کوئی بھی شیخو نہیں مل سکا ہے، آج تک برسر اقتدار رہنے والوں میں کوئی فالج زدہ، کوئی بھوک کا مارا ہوا، کوئی سرمایا اکٹھا کرنے کی ہوس میں مبتلا، کوئی اقتدار کے ہاتھوں مجبور تو کوئی مارشل لا کا پروردہ، جس کی وجہ سے اس ملک میں رہنے والی مخلوق شیخو کی بھینس سے بھی ذیادہ لاچار و بے بس نظر آتی ہے.
ہمارے حکمران اقتدار کے نشے میں دھت اپنی قوم کو بھول بیٹھے ہیں، ان کی نظر میں یہ قوم جانور بھی نہیں کیوں کہ جو لوگ جانور پالتے ہیں وہ ان کا خیال ہمارے ملک کے حکمرانوں سے اچھا رکھتے ہیں۔
حکمرانوں کی اس روش کا اگر تاریخی تجزیہ کیا جائے تو بھی ہمیں اپنی تاریخ میں لوٹ کھسوٹ کے حامی ہی ملیں گے. مسلم فتوحات کو دیکھا جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ جو بھی فاتح آئے، ان میں اکثریت لوٹ مار کو ہی اپنا فریضہ سمجھتے رہے. خاص طور پر برصغیر میں ایسے شواہد بڑی کثیر تعداد میں ملیں گے۔
حصول اقتدار کے بعد کسی نے کھوپڑیوں کے مینار بنوائے، کسی نے باپ کو اندھا کروایا، تو کسی نے بھائیوں کو قتل کروایا۔ یہی کچھ پڑھنے کو ملے گا۔ ہماری تاریخ میں جہاں بھی جس لحاظ سے بھی مطالعہ کریں تو جب معاش کی بات آتی ہے تو دو وقت پیٹ بھر کر کھانے کا ہی تذکرہ ہوتا ہے، اس سے ہم تاریخی طور پر عام آدمی کی ہر دور میں معاشی حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں.
اس بات سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عام لوگوں میں تیں وقت کے کھانے کا تصور بھی نہیں پایا جاتا اور تاریخی طور پر یا ایسا کہہ لیں کہ ہم ہی نہیں ہمارے آباؤ اجداد بھی دو وقت کے کھانے پر اکتفا کرتے تھے. جسے دو وقت کا کھانا میسر ہے وہ دوسروں کی نظر میں بہتر ہے اور تھا۔
اپنی طاقت کو ظاہر کرنے کے لیے ہم ایک دوسرے کی گردنیں اکھاڑنے میں مہارت رکھتے ہیں، چاہے تیمور اور یلدرم کو لے لیں یا سلاطین دہلی یا جدید تاریخ میں عراق، ایران کی جنگ کو لے لیں۔
طاقت کے نشے میں دھت عرب اسپین تک پہنچ گئے تھے، اب اسی نشے میں چور امریکہ ساری دنیا میں دندناتا پھر رہا ہے۔ باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو سب کا مقصد ایک ہی رہا ہے، نہ ہی کوئی جمہوریت کے لئے کہیں گھسا اور نہ ہی دین کی خدمت کے لئے، مقصد ہمیشہ تیل کے کنویں ہڑپنا یا سونے کی مورتیاں ہتھیانا ہی تھا، ہاں اس مقصد کے لیے کہیں دین کو استعمال کیا گیا تو کہیں سسٹم کو۔
ان پرانی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے آج بھی ہمارے سیاستدان الیکشن کو جنگ سمجھ کر لڑتے ہیں، انتخابات میں بھرپور طاقت کا استعمال ہوتا ہے اور جو فتح حاصل کرتا ہے وہ پاکستان کے اداروں اور عوام کو مال غنیمت سمجھتا ہے، تخت و تاج حاصل کرنے کے بعد پھر وہی تاریخ مدنظر رکھتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور اداروں کو لوٹنے اور مال غنیمت میں ملے عوام نما غلاموں (یا غلام صفت عوام؟) کو بڑی مہارت سے استعمال کرتا ہے، ٹھیک ویسے ہی جیسے رومن دور میں کیا جاتا تھا، امیر طبقہ ان سے بغیر معاوضہ محل تعمیر کرواتا تھا اور سخت محنت ومشقت کے باوجود انہیں کوئی انعام میسر نہیں ہوتا تھا ۔
آج بھی عوام اپنا خون پسینہ ملک کے لیے دے رہی ہے اور حکمران اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ کیوں کے وہ باخبر ہیں کہ اگلے پانچ سال میں پھر کوئی اور فاتح آۓ گا اور تخت و تاج اس کے پاس چلا جاۓ گا، لہذا پانچ سال میں جو کچھ سمیٹ سکتے ہیں سمیٹ لیں۔