Friday, 7 November 2014

لاوارث کیک

لاوارث کیک
تنویر آرائیں

ملک میں اس وقت بھوک و ننگ ناچ رہی ہے، عوام کا برا حال ہے، اسپتالوں میں کتے اور اسکولوں میں گدھے راج کر رہے ہیں اور ہماری سیاسی اشرافیہ نیا پاکستان بنانے اور جمہوریت بچانے کا سرکس لگائے بیٹھی ہے۔ جلسے جلوس روز کا معمول بنا ہوا ہے جس کا دل کرتا ہے منہ اٹھا کر لاوارث اور مسکین عوام کو گاڑیوں میں ٹھونس ٹھونس کر اپنا سیاسی قد ظاہر کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔

خیبر پختونخواہ میں دس لاکھ متاثر بے یارومددگار پڑے ہیں، مگر حکمران سیاسی چپو لیے اسلام آباد اور دیگر شہروں کے سیر سپاٹے میں مصروف عمل ہیں۔ پنجاب میں سیلاب سے متاثر بیس لاکھ سے زائد لوگ بے سرو سامان اور لاچاری کے عالم میں بے بس ادھر ادھر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں مگر حکمران طعنے دینے اور الزامات کی بوچھاڑ میں مصروف عمل ہیں۔ سندھ میں تھر کی عوام قحط میں مبتلا ہے اور حکمران چھتیس چھتیس ڈشیں بنوانے اور تناول فرمانے میں مصروف۔

جہاں نظر دوڑائی جائے وہاں سیاسی جوکر اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایسے بےقرار ہیں جیسے بھوکا بھیڑیا بکری کو دیکھ کر ہوتا ہے کے کب موقع ملے  اور اس پر جھپٹ جائے۔

اس وقت پاکستان میں ادارے تباہ ہو رہے ہیں، معیشت دیوالیہ ہونے کو ہے، دہشتگردی اور لا قانونیت کا جن کب کا بوتل سے باہر نکل آیا ہے، غربت اپنے عروج پر، وسائل نہ ہونے کے برابر، روزگار سونے سے مہنگا، لیکن سیاسی اشرافیہ اپنی ڈگڈگی بجانے کے علاوہ کچھ کرتے ہوئے نظر نہیں آ رہی۔ جہاں دیکھو سیاسی جوکر ایک ہی ڈرامے کر رہے ہیں اور اس ڈرامے کی کامیابی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔

پاکستان میں اس وقت جاری ڈراموں پرلاکھوں کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں حکومتی وسائل کا بھی بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔ ایسا  لگ رہا ہے کہ عوام نے انہیں حق حکمرانی اپنی ذاتی زندگی کو خوشنما بنانے اور سیاسی قد کاٹھ ناپنے کے لیے لگائی جانے والی نو ٹنکیوں کے لیے دیا تھا۔ جدھر دیکھو عوام کا برا حال ہے جبکہ حکمران ہوس اقتدار میں بے حال ہیں۔

وطن عزیز کے پیچھے یزید پڑے ہوئے ہیں، ہمیں جلسوں جلوسوں سے فرصت نہیں، ملک کے ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جا پا رہے، ہم ہیں کے فلائی اوور اور میٹرو جیسے نکمے اور گھٹیا منصوبوں پر زبردستی کی خوشامد کے متلاشی ہیں۔ کہتے ہیں علم کے بغیر انسان اندھا ہے لیکن ہم کرہ ارض پر واحد قوم ہیں جو اپنی نوجوان نسل کو نور دینے کے بجائے انہیں بندوقوں اور پٹاخوں سے  بہلا رہے ہیں۔

پاک فوج دھرتی پر بڑھتے ہوئے کینسر جیسے مہلک مرض کو نیست و نابود کرنے میں مصروف ہے اور سیاسی جوکر ڈگڈگی پر تماشا لگا کے نیک مقصد کے لیے شہادت پانے والے شہیدوں کی لاشوں کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں۔

ملک میں عوام کے پاس پینے کو صاف پانی میسر نہیں جبکہ منرل واٹر سے نہانے والے کروڑوں روپے جلسے جلوسوں پر خرچ کر رہے ہیں۔ اسلام آباد والی نوٹنکی سے لے کر کراچی والے سرکس تک کروڑوں سے بڑھ کر اربوں روپے خرچ کے جا رہے ہیں۔ اگر یہ پیسا عوام کو گاڑیوں میں ٹھوس ٹھوس کر لانے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے تو یقیناً  انقلاب برپا ہو جائے اور تبدیلی بھی آجائے اس کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو لاحق مبینہ خطرات بھی ٹل جائیں۔ مگر نہیں اگر یہ سب کچھ کرنے بیٹھ جائیں گے تو پاکستان کی عزت کیسے ملیامیٹ ہو گی اور انٹرنیشنل کمیونٹی ہمیں گھٹیا ترین الفاظ سے کیسے یاد کرے گی۔

عوام کوگاڑیوں میں ٹھونس ٹھونس  کر لا کر ایک دن بریانی کھلانے سے بہتر ہے کہ انہیں مستقل روزگار کے ذرائع فراہم کیے جائیں مگر نہیں ایسا کریں گے تو بنگلوں اور حویلیوں سے رونقیں غائب ہو جائیں گی۔ اگر نوجوان طبقہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا تو ان نو ٹنکی بازوں کا تماشا کون دیکھے گا؟

ہمارے ملک میں اسپتال تو موجود ہیں لیکن ڈاکٹر اور دوائیاں نہیں تو کیا ہوا، ڈاکٹر تو وی آئی پی ڈیوٹیوں کے لیے ہیں۔ غریب اور مفلس لوگ مرتے ہیں تو مریں، اچھا ہے ملک کی آبادی کم ہو گی ویسے ہی ملک میں آبادی زیادہ اور وسائل کم ہیں۔

کیا ہوا اگر تھانوں میں نفری نہیں ہے تھانے تو موجود ہیں نا؟ نفری عوام کے لیے تھوڑی نہ ہوتی ہے وہ تو بڑے بڑے بوٹ اور سوٹ والوں کے دروازوں اور اسکواڈ کے لیے رکھی ہے۔ باقی کرائم کم کرنے لوٹ مار کی روک تھام کے لیے تھانوں کا ڈر ہی کافی ہے۔ تھانوں کا وجود کوئی معمولی بات تھوڑی ہے۔  وہ بھی اگر ان لمبے لمبے بوٹوں والوں کا بس چلے تو بیچ کے کھا جائیں یا اپنے باپ داداؤں کے نام پر پلازے بنوا لیں۔

یہ تو پاکستانی قوم پر ان کی مہربانی ہے کہ ابھی تک سرکاری عمارتیں محفوظ ہیں، ویسے کرنے والوں نے تو کئی سرکاری عمارتیں تو کیا قبرستان تک ہتھیانے کی کوششیش ضرور کیں، مگر پتا نہیں کن نیک بندوں کی دعائیں تھیں کہ مکلی کا قبرستان بچ گیا، ہاں لیکن اس عمل کے خلاف آواز اٹھانے والے صحافی کو اپنی قلم کا استعمال کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔      

ہمارے ملک میں تو متاثرین کے پاس بھی ان کے زخموں پر نمک پاشی کرنے جایا جاتا ہے۔ دیکھا نہیں پچھلے دنوں پنجاب کے متاثرین جو اپنا گھر بار لٹا کے کیمپوں میں سر چھپائے بیٹھے تھے انہیں کے پیسوں سے ان سے ملاقات کے لیے ہیلی کاپٹر اور  جیٹ طیاروں پر سفر  ہوتا رہا۔ عوام بھوک افلاس سے گردے اور بچے بیچنے پر مجبور ہیں، جبکہ حکمران انہیں کے پیسے سے نئی بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز خرید رہے ہیں۔ عوام کی حالت جانوروں سے بھی بدتر ہے لیکن حکمرانوں کی سیکورٹی کے لیے عوام کے پیسوں سے کتے خریدے جا رہے ہیں۔

عوام کے پیسوں پر عوام کو لاٹھیاں مارنے اور ذلیل کرنے کا فیشن تو عام ہے اور عوامی پیسے پر عیش کرنا ان کا حق، اور یہ حق انہیں عوام نے ووٹ دے کے دیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جوحضرات VIP کلچر کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں وہ بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ کیا یہ دوغلا پن نہیں؟ لیکن دوغلا پن کیا ہوتا ہے اس سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔ کیونکہ منافقت تو سیاست کا بنیادی جزو ہے، تو اسے استعمال کر کے شرمندگی کیسی؟

اپنی ذاتیات اور انا کے لیے تو دھرنے دیے جا رہے ہیں اور جلسے بھی ہو رہے ہیں، لیکن کاش ان سیاسی جوکروں میں سے کوئی ایسا ہوتا جو بھوک، بیروزگاری، کرپشن، لاقانونیت، انصاف، روزگار، تعلیم، صحت سمیت دیگر انیک مسائل جن کا عوام کو سامنا ہے ان کے لیے کوئی دھرنا دیا جاتا، کوئی لانگ مارچ ترتیب دیا جاتا۔ مگر کیا فائدہ ان کیڑے مکوڑوں کے لیے آواز اٹھانے کا یہ لوگ تو ڈگڈگی پر تماشا دیکھنے آہی جاتے ہیں لہٰذا ان پر اپنا وقت اور پیسا کیوں برباد کیا جائے؟ سب کا مقصد صرف "پاکستان کی حکمرانی" نامی لا وارث کیک کو ہتھیانا ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے لپک لپک کے کیے جانے والے واروں نے اس کیک کا ستیاناس کر دیا ہے۔ 
یہ بلاگ ڈان اردو پر 30 اکتوبر 2014 کو شایع ہو چکا ہے.  
  

  
   

Sunday, 19 October 2014

کیا پیپلز پارٹی سکڑ رہی ہے؟

کیا پیپلز پارٹی سکڑ رہی ہے؟
تنویر آرائیں

ضیاء الحق کے مارشل لا لگانے اور ذوالفقارعلی بھٹو کے احمد رضا قصوری پر مبینہ قاتلانہ حملے (جس میں وہ بچ گئے اور ان کے والد ہلاک ہوئے) کے مقدمے میں گرفتار ہونے کے بعد سے وقتاً فوقتاً یہ سوال ملک کے دانشوراور سیاسی حلقوں میں گردش کرتا رہتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی سکڑ رہی ہے؟ لاتعداد بار پیپلز پارٹی کے خاتمے کی سرگوشیاں سننے میں آتی رہی ہیں۔ اس سوال کا جواب عموماً ہاں میں نکلتا ہے، اور سرگوشیوں پر بھی سنجیدگی دیکھنے میں آتی ہے۔ مگر وقت آنے پر حقائق ہمیشہ یکسر مختلف رہے ہیں۔

فوجی آمر ضیاء الحق اور اس کا ساتھ دینے والوں کو بھی بھٹو کے جیل میں  ہونے کے بعد یہ خوش فہمی لاحق تھی کے قیدی بھٹو کمزور ہوتا جائے گا مگر ان کی یہ خوش فہمی زیادہ دن تک برقرار نہ رہ سکی کیونکہ ملک میں ذوالفقارعلی بھٹو کے ہمدرد سختیوں اور کوڑوں کی سزاؤں کے باوجود "جئے بھٹو" کے نعرے لگا رہے تھے۔ ان کے ڈر سے یونیورسٹیوں اور کالجوں کو تالے لگائے جا رہے تھے۔ جہانگیر بدر نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ پورے ملک میں وہ شخص تھا جسے سب سے پہلے کوڑوں کی سزا ہوئی اور وہ ہر کوڑے پر "جئے بھٹو" کا نعرہ لگاتا رہا، اور بعد میں تھوڑی ہی دوری پر کھولی میں قید ذوالفقارعلی بھٹو نے اسے پیغام بھیجا تھا کہ یہ کوڑے تمہارے جسم پر نہیں، مجھ پر برس رہے ہیں۔   

جس وقت ملک میں بھٹو کی مقبولیت میں کمی  کے دعوے کیے جا رہے تھے، تو اس دوران 7 فروری 1979 کو نیو یارک ٹائمز نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ "بھٹو فوجی بغاوت سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہیں"۔

ذوالفقارعلی بھٹو نہ صرف پاکستان میں ایک مقبول ترین لیڈر تھے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کی مقبولیت کو تسیلم کیا جاتا تھا جس کی مثال "فار ایسٹرن اکنامک ریویو" کے 16فروری 1979 کے اس اداریے سے لی جا سکتی ہے جس میں وہ امریکا کے 41 ویں نائب صدر نیلسن راکفیلر کے ایک جملے کا حوالہ دیتے ہیں کے نیلسن نے بھٹو کے بارے میں کہا تھا "خدا کا شکر ہے کہ میرا کسی انتخاب میں ان سے مقابلہ نہیں ہوا"۔  

اس کے باوجود بھی ہمارے ملک میں پیپلز پارٹی کے سکڑنے کی خبریں گردش کر رہی تھیں اور پیپلز پارٹی کے مخالف یہ سمجھ رہے تھے کہ پیپلز پارٹی ختم ہونے کو ہے، اسی وجہ سے بھٹو کو سزائے موت کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ہی مخالفین نے مٹھائیاں بانٹنا شروع کر دی تھیں۔

لیکن ان سب گردشی خبروں کے برعکس بین الاقوامی میڈیا بھٹو کی مقبولیت میں اضافے کی خبریں اور اداریے چھاپ رہا تھا۔ 16 فروری 1979 کو "ایشیا ویک" کی رپورٹ کے مطابق پاکستان قومی اتحاد میں شریک ایک اہم مذہبی جماعت کے کارکن بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائے جانے پر مٹھایاں بانٹ رہے تھے اور شکرانے کے نوافل ادا کر رہے تھے، مگر اس کے دو دن بعد 18 فروری کو لندن کے مقبول جریدے گارجین نے لکھا تھا کہ پاکستان میں "ایسے انتخابات کبھی نہیں ہوں گے کہ جس میں بھٹو کو آزادانہ طور پر مسترد کردیں، یہ بھوت کبھی دفن نہ ہو گا"۔

پی این اے کے سربراہ مفتی محمود نے بھٹو کو پھانسی ہونے کے بعد ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "پاکستان پیپلز پارٹی بھی بھٹو کے ساتھ مر گئی" لیکن اگر ایسا تھا تو بھٹو خاندان کی دو عورتیں کیوں رہا نہیں کی جا رہی تھیں؟ اور 27 اپریل 1979  کی "فار ایسٹرن اکنامک ریویو" کی رپورٹ نے مفتی محمود کے پیپلز پارٹی کی موت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ "محمود کے دعوے کے برعکس عوام میں پیپلز پارٹی کی حمایت اب بھی برقرار ہے۔ غور و فکر کرنے والے ہمدردوں کو یقین ہے کہ اگر غیر متوقع طور پر پی پی پی کے رہنما اور کارکن رہا کر دیے جاتے ہیں اور 17 نومبر کے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے تو یقینی طور پر پارٹی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آ جائے گی"۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے مختلف اوقات میں یہ دعوے سننے کو ملتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ختم ہو گئی ہے یا سکڑ رہی ہے، لیکن تاریخی طور پر ایسے دعوے ہمیشہ غلط ہی ثابت ہوتے آئے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بینظیر بھٹو کی جلا وطنی میں بھی ایسی ہی سرگوشیاں سننے کو ملتی تھیں اور مشرف کا ساتھ دینے والے کئی سیاسی وڈیرے اس قسم کے دعوے کرتے ہوئے نظر آئے مگر 18 اکتوبر 2007 کو جب بینظیر بھٹو وطن واپس لوٹیں تو لاکھوں کے مجمعے نے سیاسی پنڈتوں کے پیپلز پارٹی کے انتم سنسکار کی خواہش کو ہی مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔ اور پیپلز پارٹی کا ختم قرار دیا جانے والا باب پھر سے کھل گیا۔

پیپلز پارٹی کے سکڑنے اور علاقائی پارٹی میں تبدیل ہونے کے دعوے آج بھی ہماری سیاسی فضا میں موجود ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پنجاب سے غیر ممکنہ شکست کے بعد سے ایسی سرگوشیوں نے زور پکڑا اور تحریک انصاف کے دھرنوں کے بعد ان میں مزید تیزی آئی۔ جبکہ بلاول بھٹو ذرداری کے معافی نامے سے کئی سیاسی مخالفین کے دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں۔

اس معافی نامے کا مقصد اگر کوئی سمجھتا ہے کہ باغی کارکنان کو اسٹاپ کا اشارہ دینے کی ناکام کوشش ہے تو وہ خوش فہمی میں مبتلا ہے۔ میرے خیال سے یہ معافی نامہ پیپلز پارٹی کے کارکنان میں صور پھونکنے کے مترادف ہے۔ ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے کارکنان کو یہ اشارہ دینا ہے کہ میں میدان میں آ گیا ہوں۔

دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرداری کا لاہور میں ڈیرے ڈالنا اور پارٹی کے مقامی رہنماؤں سے ملاقاتیں اس بات کا پختہ ثبوت ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کی واپسی اور پارٹی کو متحرک کرنے میں سنجیدہ ہو گئی ہے۔ کیونکہ آصف زرداری نے پیپلز پارٹی پنجاب کے کئی اہم اور سینئر رہنماؤں کو گزشتہ دور میں نظر انداز کیے رکھا اور اب وہ اپنی غلطی کو درست کرنے میں مصروف عمل نظر آرہے ہیں، کیونکہ پارٹی کی قیادت جانتی ہے کہ پنجاب میں حمایت حاصل کرنے کے سوا اقتدار ممکن نہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں اپنا پتہ پھیکنے کی مکمل تیاری بھی کر لی ہے اور یہ پتہ پیپلز پارٹی کے لیے یقیناً کارگر ثابت ہو گا۔

جہاں تک پیپلز پارٹی کے خاتمے کا سوال ہے تو وہ اس کے بانی نے اپنی حیات میں ہی شاید یہ الفاظ پیپلز پارٹی کے خاتمے اور بھٹو کی گمنامی کی خبروں کی گردش کو ہی سامنے رکھتے ہوئے کہے تھے کہ "میں موت کی کوٹھری میں مرنے کے لیے پیدا نہیں ہوا"۔

فار ایسٹرن اکنامک ریویو نے 16 فروری 1979 کو لکھا تھا کہ " بھٹو پھانسی پر موت سے ہمکنار ہوں یا جیل میں گھل جائیں، مگر بھٹو ازم جاری رہے گا" اس کی یہ پشنگوئی ابھی تک صحیح ثابت ہوتی آرہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بھٹو کی تلوار کا سایہ ابھی تک پاکستان پر منڈلا رہا ہے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔
       

یہ بلاگ 17 اکتوبر 2014 کو ڈان اردو پر شایع ہو چکا ہے.

Thursday, 9 October 2014

تحریک انصاف کا نیا پاکستان

تحریک انصاف کا نیا پاکستان  
تنویر آرائیں

14 اگست 2014 سے ن لیگ حکومت کے خلاف شروع ہونے والی تحریک انصاف کی مہم کئی مراحل سے گزرتی ہوئی ان دنوں موبائل دھرنوں کی شکل اختیار کر چکی ہے، جو دن کو کہیں نہ کہیں بھٹکتی ہوئی رات کو اسلام آباد  پہنچتی ہے۔ دن گزرتے جا رہے ہیں اور مایوسیوں کے بعد نئی امنگیں ایک بار پھر اس مہم میں جان ڈال دیتی ہیں۔ لاہور سے لانگ مارچ کی صورت میں شروع ہونے والی یہ مہم سول نافرمانی، دھرنے اور "گو نواز گو" کے نعرے لیتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔ آج ملک کی عوام کا ایک حصہ یہ سوچ رہا ہے کہ میاں نواز شریف صاحب استعفیٰ دے دیں گے اور دوسرا حصہ اندازہ لگا رہا ہے کے اپنے ہاتھ سے اپنے اقتدار کا گلا کوئی کیسے دبوچ سکتا ہے۔ وہ بھی اس وقت کہ جب پارلیمنٹ میں موجود ایک جماعت کے علاوہ تمام جماعتیں حکومت کے ساتھ ہوں۔

اس مہم کے ابھی تک طے کرنے والے سفر میں ہم روزانہ جو خطابات سن رہے ہیں وہ یقیناً سبز باغ تو ہیں لیکن ان پر عمل بھی ہونے کا یقین واقعی ایک اہم نقطہ ہے۔ ان تمام تر سبز باغات کے پورے نہ ہونے کی مثالیں ہماری تاریخ میں بھری پڑی ہیں۔ انتخابی مہم میں بھی بڑے بڑے وعدے کیے جاتے ہیں اور انتخابات کے بعد سلیمانی ٹوپی پہن کر غائب ہوتے ہوئے بھی عوام گزشتہ 65 سالوں سے  کئی لوگوں کو دیکھتے آئے ہیں۔

عمران خان صاحب نے لاہور سے نکلتے وقت جو تقریر رٹی تھی وہی تقریر ابھی تک خان صاحب کے ذہن میں ہے۔ تقریباً 45 دن سے وہی کھٹی میٹھی چیزیں سننے کو مل رہی ہیں۔    

پرانے سانچے سے نئے مال کی امید  بالکل ایسے ہی ہے جیسے گدھے کے ہاں ہرن کی پیدائش۔ خان صاحب بھی سیاسی لاوارثوں اور لوٹوں کی فوج سے نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے کے دعوے کر رہے ہیں اور اس ٹیم کو بہترین ٹیم کے القابات سے نواز رہے ہیں۔ اگر شاہ محمود قریشی، شیخ رشید، شفقت محمود، اعظم خان سواتی، جہانگیر ترین، پرویز خٹک سمیت ایک طویل فہرست اتنی بہترین ٹیم ہیں تو یہ ٹیم پرویز مشرف، پیپلز پارٹی، ن لیگ یا جماعت اسلامی کے لیے کارآمد کیوں نہ ثابت ہو سکی؟

خان صاحب فرماتے ہیں کہ اسٹیٹس کو کا خاتمہ کریں گے، تو خان صاحب  اس کی شروعات دائیں بائیں سے کیوں نہیں کرتے؟ دائیں بائیں لوٹوں، سیاسی یتیموں، اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹوں اور اسٹیٹس کو کے علمبرداروں کی بھرمار ہے اور خان صاحب ان تمام کریکٹروں کو دوسری بوگیوں میں تلاش کر رہے ہیں۔

وی آئی پی کلچر کے خاتمے کی بلند و بانگ دعوے بھی اس وقت اچھے لگیں گے جب دعویٰ کرنے والا خود بھی "ہیلی کاپٹر" اور بلیٹ پروف V8 میں سفر نہ کرے۔ VIP  کلچر کے خاتمے کے دعوے کرنے والوں کو پہلے اپنی ذات سے VIP کلچر کا خاتمہ کرنا چاہیے۔

اگر خان صاحب کو عوامی  خزانے کے لٹنے کا واقعی دکھ ہے تو اسلام آباد میں خیبر پختونخواہ ہاؤس کا استعمال ذاتی معاملات کے لیے کیوں ہو رہا ہے؟ پہلے دھرنوں میں شریک ہونے والی اہم شخصیات کے لیے مسافر خانہ بننے والے خیبر پختونخواہ ہاؤس کو خالی کروایا جائے پھر دکھ بانٹے جائیں تو یقیناً ان کے دعوے اثر انداز ثابت ہوں گے۔

ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں تعلیمی اصلاحات کی ضرورت ہے یقیناً خان صاحب کو اس نقطے کو زیر بحث لانا چاہیے لیکن اس سے پہلے اپنے بچے بھی پاکستان لانے چاہیئں اور کم از کم وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو بھی یہی نصیحت کرنی چاہیے۔

خان صاحب باریاں لینے کا بھی تذکرہ فرماتے ہیں کہ تیری باری اور میری باری کا کھیل چل رہا ہے، خان صاحب سے عرض ہے کہ اسٹیج پر جمع مجمعے پر غور کریں تو آپ کو گزشتہ 3 دہائیوں سے باریاں لینے والے ملیں گے اور جن کی طرف آپ کا اشارہ ہے وہ ہمیشہ اپنی باریاں چھینتے ہوئے پائے گئے ہیں، چاہے وہ PNA کی شکل میں ہوں، IJI یا GDA کے روپ میں ہمیشہ ان کو وکٹ پر کھڑا کر کے گیند کرائے  بغیر ہی آؤٹ قرار دے دیا جاتا ہے، جیسا کہ اس بار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

خلفاء راشدین کے طرز کی سادگی اپنانے کے دعوے کرنے سے پہلے ایئر کنڈیشنڈ اور بلٹ پروف کنٹینر، پرائیویٹ جیٹ، ہیلی کاپٹر اور V8 یا لیکسس کا استعمال ترک کرکے عوامی ٹرانسپورٹ میں عوام کے ساتھ سفر، منرل واٹر کے بجائے عام پانی اور کنٹینر کے بجائے عوام کے ساتھ خیموں میں رہنے کی عادت ڈالنی پڑے گی۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب نے کراچی اور لاہور میں کامیاب جلسے کیے، مگر ان جلسوں میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد کو ووٹرز کی تعداد سمجھنا خوش فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا، اور سیاست میں سب سے مشکل کام بھی جلسے جلوسوں میں شریک تعداد کو ووٹرز میں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔

دسمبر 2012 میں پاکستان مسلم لیگ فنکشنل نے حیدرآباد میں پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ میں لائے گئے نئے بلدیاتی قانون کے خلاف ایک جلسہ منعقد کیا تھا، جس میں لاکھوں کی تعداد میں عوام نے شرکت کی تھی۔ وہ جلسہ اتنا کامیاب تھا کہ سندھ کے کئی اہم سیاستدانوں نے اس جلسے سے متاثر ہو کر یا تو فنکشنل لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی یا پارٹیاں چھوڑ کر آزاد حثیت میں انتخابات لڑنے کا فیصلہ کر ڈالا تھا اور کچھ تو جلسے سے ایسا متاثر ہوئے کہ پیپلز پارٹی میں شمولیت کے کچھ دن بعد ہی پیپلز پارٹی چھوڑ گئے تھے۔

ان تمام تر سیاسی وڈیروں کا خیال تھا کہ اس بار فنکشنل لیگ سندھ میں حکومت بنائے گی۔ ان میں سے کئی لوگوں نے اس بات کا مجھ سے اظہار بھی کیا تھا۔ میں یہاں ان کے نام لے کر ان کے زخموں پی نمک پاشی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن نتیجہ بالکل برعکس نکلا۔ اس کے علاوہ جنوری 2012 میں کراچی میں جمعیت علماء اسلام (ف) کی جانب سے بھی ایک کامیاب جلسہ منعقد کیا گیا تھا مگر جلسے کے شرکاء کو ووٹرز میں تبدیل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔

ایسے لاتعداد جلسے ہماری تاریخ کا حصہ ہیں جو کہ جلسوں کی حد تک تو بہت کامیاب نظر آئے، لیکن انتخابات میں کامیابی کا سبب نہیں بن پائے۔

عمران خان صاحب کے جلسے میں آنے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں ڈسکو پارٹی ایک اہم وجہ ہے۔ ظاہر ہے جس ملک میں انٹرٹینمنٹ کے مواقع دستیاب نا ہوں گے وہاں اگر جلسے جلوسوں میں ہلہ گلہ ملے تو جانے میں کیا حرج ہے؟ اور ٹکٹ کی جگہ "گو نواز گو" کا اسٹیکر یا گال پر پی ٹی آئی کا جھنڈا بنوانے سے مسئلہ حل ہو جائے تو اس سے سستا سودا اور کیا ہو سکتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے پاس اس وقت سنہری موقع ہے کہ وہ خیبر پختونخواہ میں اپنی بہترین ٹیم کے دعوے کو ثابت کریں اور کارگردگی کی بنیاد پر اپنی جڑیں عوام میں مضبوط کر کے اقتدار میں آئیں، نا کہ رسہ کشی کا استعمال کر کے خود کو متنازعہ بنائیں اور عوام میں اپنی مقبولیت کو کم کریں۔ اس طرح سے اقتدار میں آنے کا فائدہ ان کی پارٹی کو نہیں بلکہ ان قوتوں کو ہوگا جو وقتاً فوقتاً دیگر پارٹیوں کو استعمال کرتی رہی ہیں۔ ایسے استعمال سے تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈالے گئے سیاسی مفاد پرست ٹولے کو تو فائدہ ہو گا مگر عوام کے کسی فائدے کا نہیں سوچا جا سکتا۔

یہ بلاگ 6 اکتوبر 2014 کو ڈان اردو پر شایع ہو چکا ہے.

Tuesday, 7 October 2014

قدرتی آفات اور پاکستان

قدرتی آفات اور پاکستان   

تنویر آرائیں


سیلاب نے ایک بار پھر ملک کی عوام کو دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ قدرتی آفات کے باعث سینکڑوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اور بے  گھر ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہوچکی ہے۔ عوام ایک بار پھر بلبلا اٹھی ہے۔

اس سے پہلے بھی آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے ہمارے ملک کے تقریباً دس لاکھ لوگ بنوں میں زیر عتاب ہیں۔ اس کے علاوہ دو صاحب اور بھی ہیں جو اسلام آباد میں کیمپ لگائے بیٹھے ہیں، اور خود کو نظام اور انتخابات متاثر کہہ رہے ہیں۔ ان تینوں قسم کے متاثرین کے بارے میں تفصیلی بحث آئندہ کسی بلاگ میں ضرور کریں گے۔

اس وقت ملک میں اہم ترین مسئلہ سیلاب ہے تو بات اسی پر کرنی چاہیے۔ جولائی 2010 میں شدید بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 20 ملین یعنی 2 کروڑ لوگ متاثر ہوئے تھے۔ 307,374 مربع میل علاقہ زیرآب آیا تھا اور تقریباً دو ہزار کے قریب اموات ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے انفراسٹرکچر اور املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2010 کے اس سیلاب سے ملکی معیشت کو تقریباً 4.3 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔

2010 کے سیلاب سے بڑے پیمانے پر سڑکیں تباہ ہوئیں، 10,000 کے قریب ٹرانسمیشن لائنیں اور ٹرانسفارمرز متاثر ہوئے، جبکہ 150 پاور ہاؤسز زیرآب آئے۔ جس کے باعث 3۔135 گیگا واٹ توانائی کا شارٹ فال ہوا۔

نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق 29 ستمبر تک تقریباً  2,523,681 لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ 360 افراد جاں بحق، 646 لوگ زخمی، اور 56,644 گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 4065 سے زائد دیہات بھی متاثر ہوئے، جبکہ 2,416,558 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں اور 8957 سے زائد مویشی سیلاب میں بہہ گئے۔
------------
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے مطابق قدرتی آفات سے پہلے انتظامات پر جہاں ایک ڈالر خرچ آتا ہے، وہاں آفات کے بعد سات ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قبل از آفات انتظامات نہ کرنے سےخرچ 6 گنا بڑھ جاتا ہے اور جانی نقصان اس کے علاوہ ہوتا ہے۔ مگر کیا کہنے ہماری حکومتوں کے۔ تاریخ گواہ ہے کے پاکستان میں ممکنہ خطرات کے پیش نظر کبھی بھی کوئی انتظامات دیکھنے کو نہیں ملے۔

اس وقت سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں میں ریسکیو کا عمل جاری ہے جس میں ضلعی انتظامیہ، ریسکیو 1122 اور پاک فوج حصہ لے رہی ہے۔ جبکہ سیلابی ریلا آگے کی جانب گامزن ہے جس سے مزید قیمتی جانوں اور املاک کے نقصان کا خدشہ ہے۔

2010 کے تباہ کن سیلاب کے بعد عدالتی کمیشنز بنے، جنہوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں پر اپنی رپورٹس مرتب کر کے صوبائی حکومتوں کے حوالے کیں۔ ان رپورٹس میں انتظامیہ کی جانب سے برتی جانے والے غفلت سمیت کئی  چیزوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ مگر حسب معمول فائلیں سرد خانے کے حوالے کر دی گئیں۔

2010 کے سیلاب میں سندھ کے کئی سیلاب زدہ علاقوں میں جو عام شکایات میرے سامنے آئیں، وہ دریائی راستوں اور نکاسی آب کے راستوں پر ناجائز تجاوزات تھیں۔ کئی متاثرین نے بات چیت کے دوران مجھے بتایا کہ نکاسی آب کے قدرتی راستوں پر دریاؤں کے بندوں کو ہموار کر کے وہاں آبادی کی گئی ہے، جس کی وجہ سے سیلابی پانی کا دباؤ بڑھا اور کئی جگہوں پر شگاف پڑے جن کی وجہ سے بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

ہمارے ملک میں ایک اور چیز بھی عام ہے، وہ ہے کچے میں آبادی، جس کو ہماری عوام اپنا حق سمجھتی ہے اور انتظامیہ بھی اس قسم کے تجاوزات کی جانب توجہ نہیں دیتی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کشمور سے کیٹی بندر تک کچے میں تقریباً 24 لاکھ افراد مقیم ہیں اور وہاں زراعت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ اگر پانی کا  بڑا ریلا دریائے سندھ سے گزرتا ہے تو وہ ابتدائی طور پر 24 لاکھ کی آبادی کو متاثر کرے گا جو زبردستی متاثر ہونے کے مترادف ہے۔

سندھ میں قدرتی آبی راستوں پر ناجائز تجاوزات کے خلاف سندھ اسمبلی میں قانون بھی پاس ہو چکا ہے، جس کے تحت تجاوزات میں ملوث افراد پر سخت سزائیں اور بھاری جرمانے بھی عائد کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ قانون بھی بالکل ویسے ہی ردی کی نذر ہوچکا ہے جیسے کہ دیگر قوانین۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اس قسم کی ناجائز تجاوزات میں وہ لوگ ملوث ہیں جو سیاسی حلقوں میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں یا جن کے دم پر ایم پی اے یا ایم این اے ایوانوں تک پہنچتے ہیں۔

پاکستان میں عموماً قوانین بنتے ہی توڑے جانے کے لیے ہیں، اور ان پر عملدرآمد کے بجائے ان کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں۔

اب جب کہ پاکستان کی حکومتیں جانتی ہیں کہ Climate Change کی وجہ سے ہر سال سیلاب میں شدت آنے کا امکان ہے تو ایسے میں ایوانوں میں یہ کہنا کہ ہمیں تو پتا ہی نہیں چلا اور اچانک  سیلاب آ گیا، ایک مجرمانہ غفلت کو چھپانے کی ناکام کوشش کے مترادف ہے۔ اس قسم کی احمقانہ باتوں کے جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ حضور قدرتی  آفات بتا کر نہیں آتیں ہر ملک ممکنہ خطرے کے پیش نظر بندوبست کرتا ہے، اور اپنی عوام کی جان و مال کے ہر ممکن تحفظ کے لیے عملی بندوبست کرتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ National Climate Change Policy منظور ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ذمہ دار ادارے اور وزراء اس پر عملدرآمد کے لیے تیار نہیں ہیں۔

تمام ترقی یافتہ ممالک میں ممکنہ خطرات کے پیش نظر پیشگی انتظامات کیے جاتے ہیں جبکہ ہمارے پاس پیشنگوئی کے باوجود کوئی انتظامات دیکھنے کو نہیں ملتے۔ تباہ کاریوں کے بعد، بجائے اس کے کہ کمزوریوں اور غلطیوں سے سبق سکھ کر مستقبل میں ایسی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے کوئی پالیسی بنائی جائے، ہم ایک دوسرے کے خلاف الزامات کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ ویسے بھی پالیسیوں پر عملدرآمد تو ہوتا نہیں ہے تو بنانے کا فائدہ کیا ہو گا۔ جو پہلے بنی ہوئی ہیں، وہ بھی منوں مٹے تلے دب چکی ہیں۔

جب تک ہمارے ملک میں قوانین سنجیدگی سے نہیں بنیں گے، اور ان پر عملدرآمد نہیں ہو گا، ہم ہردفعہ ایسے ہی نقصانات کا سامنا کرتے رہیں گے، اور عوام کی چیخ و پکار ہمارے کانوں میں گونجتی رہے گی۔ ساتھ ساتھ معیشیت بھی ڈوبتی چلی جائے گی۔
______________________________________________
لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر@tanvirarain کے نام سے لکھتے ہیں۔

______________________________________________   

یہ بلاگ 1 اکتوبر 2014 کو ڈان اردو پر شایع ہو چکا ہے.
    

  

Monday, 29 September 2014

مذہب معاشرہ اور ریاست

مذہب معاشرہ اور ریاست
تنویر آرائیں

پاکستان کہنے کو تو 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا تھا لیکن کیا پاکستان ایک آزاد مملکت ہے جہاں ہر شخص کو کہنے، سننے، لکھنے، پڑھنے، کام کرنے یا اپنے مذہبی، سماجی، معاشرتی فرائض سرانجام دینے کی آزادی ہو؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر باشعور پاکستانی کے ذہنوں میں کبھی نہ کبھی گردش ضرور کرتا ہے. جب بھی اس سوال کا جواب ڈھونڈھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر پاکستانی کو جو چیز نظر آتی ہے اسے "غلامی" کہتے ہیں.

ذرا سی سنجیدگی سے اگر ہم اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیں تو ہمیں قدم قدم پر بندشوں کی ایک طویل قطار نظر آتی ہے جو پاکستانی قوم کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور ملک روز بروز ترقی کے بجاۓ پسماندگی کی طرف بڑھ رہا ہے.

جس ملک میں کچھ کہنے پر پرچے درج ہوں، لکھنے پر لفافہ لکھاری کے الزامات، پڑھنے پر فرقوارانہ فسادات اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ  کام کرنے پر ایجنٹ قرار دیا جاۓ تو اس معاشرے میں نئے خیالات، نئی سوچ اور صلاحیتوں کو زنگ ہی لگے گا اور پسماندگی کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو پائے گا.

ہمارے ہاں سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کا استعمال ایک ایسی تدبیر ہے کے جس سے ہر مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے. کیوں کے پاکستان مذہبی بنیاد پر قائم ہوا تھا. آج بھی پاکستان میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مذہب کو سب سے زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے، چاہے وہ فرقوں کی بنیاد پر ہو یا دو مذاہب کی بنیاد پر. جسے ہم Sectarianism یا Comunalism کہہ سکتے ہیں، پاکستان میں ان دو قسموں کے انتشار کے پیچھے جو عوامل کار فرما ہیں وہی پاکستانی معیشیت کو تباہ کر رہے ہیں.

پاکستان میں یہ فسادات آزادی کے اعلان کے ساتھ ہے شروع ہو گئے تھے یہاں پر ہندوں اور سکھوں کا قتل عام ہوا اور سرحد کے اس پار مسلمانوں کا. لیکن اس کے بعد بھی کسی نے یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کے اس قسم کے فسادات کو کیسے روکا جاۓ، بلکے روکنے کے بجاۓ دونوں ممالک نے ان فسادات میں دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی.

پاکستان میں 1970 کی دہائی میں احمدیوں کو غیر مسلم  قرار دے کر اقلیت بنا دیا گیا اور ان کے خلاف جو قوانین بنے انہوں نے معاشرے میں ان کا جینا تنگ کر دیا اور اس کے بعد دوسری مہم شیعہ فرقے کو کافر قرار دینے کی ہے.

سیاستدان سیاسی مقاصد کے لئے اس تقسیم کو رائج رکھنا چاہتے ہیں. جس تقسیم کی شروعات برطانوی راج میں ہوئی تھی. احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور اس کے بعد ان کے خلاف بننے والے قوانین نے جو کمیونل فسادات برپا ہوۓ ان کے باعث ہزاروں کی تعداد میں احمدی پاکستان سے دیگر ممالک ہجرت کر گئے. یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کے جب بھی کوئی کسی ملک سے ہمیشہ کے لئے منتقل ہوتا ہے تو وہ اپنا سرمایا بھی ساتھ لے کر جاتا ہے جس سے ملکی معیشیت کو نقصان ہوتا ہے.

UNHCR  کے مطابق 2013  میں پاکستان سے 1489 لوگ سری لنکا منتقل ہوۓ جن میں بڑی تعداد عیسائیوں اور احمدیوں کی ہے.

آج ماڈل ٹاؤن حادثے میں 14 لوگوں کی اموات پر ملک کے دارلحکومت میں دھرنا جاری ہے اور وزیراعلی پنجاب کے استفیٰ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے. ملک کے تقریباً سب ہی دانشور، ادیب اور میڈیا سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ریاستی دہشتگردی قرار دے رہی ہے. 2010  میں بھی ماڈل ٹاؤن میں احمدیوں کی ایک عبادت گاہ پر حملہ ہوا تھا جس میں درجنوں لوگ جاں بحق ہوۓ تھے مگر اس وقت کسی نے بھی دھرنا نہیں دیا تھا اور کسی دانشور نے  اپنی زبان اور قلم کا استعمال اس طرح نہیں کیا تھا. (ایسے کئی حادثات پر خاموشی کی وجہ سے ہی میں اوپر یہ لکھ چکا ہوں کے بولنے اور لکھنے کی آزادی سلب ہے).
ایسے ہی کاروائیاں سندھ میں ہندوؤں کے خلاف جاری و ساری ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہندو سندھ سے نقل مکانی کر چکے ہیں، سندھ میں ہندو سب سے بڑے کاروباری جانے جاتے ہیں جن کا کاروبار لاکھوں سے شروع ہو کر اربوں تک جاتا ہے. لیکن ملک میں جاری کمیونل ازم کی فسادی لہر نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں. مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر رمیش کمار وانکانی نے قومی اسمبلی میں کو بتایا کے ہر سال پاکستان سے 5,000 ہندو نقل مکانی کرتے ہیں.

ایسا ہی کچھ ماحول سکھوں کے لئے بنایا جا رہا ہے تا کہ وہ بھی خود کو غیر محفوظ تصور کریں اور پاکستان سے دیگر ممالک کی طرف کوچ کر جائیں.

ہم ہمیشہ مہذب دنیا کی مثالیں دیتے ہیں لیکن ان کی تاریخ یا اپنی تاریخ سے ہم نے ہم نے کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کی. عیسائی دنیا خاص طور سے یورپ اس وقت سخت فرقوارانہ جنگوں میں الجھی جب مارٹن لوتھر نے کیتھولک مذہب  چیلنج کیا اور اس کے نتیجے میں پروٹیسٹنٹ فرقہ وجود میں آیا. فرقوارانہ فسادات اس وقت اور شدّت اختیار کر گئے جب کیتھولک و پروٹیسٹنٹ فرقوں کو مختلف ریاستوں کی حمایت حاصل ہوئی. یا ایسا کہہ  لیجئے کے فرقوارانہ ریاستوں کا قیام  عمل میں آیا. فرانس کیتھولک رہا اور پروٹسٹنٹون کے خلاف رہا، انگلستان کا حکمران پروٹیسٹنٹ ہوگیا تو وہاں کیتھولک فرقہ دشمن بن گیا. خاص طور پر یورپ سولہویں صدی میں فرقوارانہ فسادات کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا. ان فسادات کی وجہ سے فرانسی معاشرہ ٹکرے ٹکرے ہو گیا.

معروف انگریز مورخ "ایچ اے ایل فشر" یورپ کی تاریخ میں لکھتا ہے کے "فرقوارانہ جنگوں نے فرانس کی صدیوں سے حاصل شدہ قومی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا. ایک شہر دوسرے شہر کا دشمن ہو گیا ایک خاندان دوسرے خاندان سے برسر پیکار ہو گیا لوٹ مار قتل و غارت گری اور توڑ پھوڑ روز مرہ کی زندگی کا معمول بن گئی. مذہب کے نام پر ذاتی دشمنیاں بھی بھگتائی گئیں.جب پورا فرانس جل رہا تھا تو دانشور اور اخلاقیات کے پیروکار خاموشی سے یہ سب تماشہ دیکھ رہے تھے".

یہی کچھ آج ہمارے ملک میں ہو رہا ہے شیعہ سنی کے نام پر قتل غارت، ہندو مسلمان کے نام پر قتل و غارت. اور بلکل سولہویں صدی کے یورپ کی طرح ہمارے حکمران ایک خاص فرقے کی پشت پناہی کرتے ہوے نظر آتے ہیں. جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہمارا معاشرے بکھرا ہوا نظر آ رہا ہے.

جس طرح فرقوارانہ فسادات کی وجہ سے فرانس سے پروٹیسٹنٹوں نے خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوۓ ہجرت کی تھی اسی طرح آج پاکستان سے نقل مکانی ہو رہی ہے جس سے معاشرہ غیر محفوظ اور معیشیت تباہ ہو رہی ہے. ملک سے باصلاحیت افراد دوسرے ملکوں میں پناہ لے رہے ہیں.

جس طرح اسپین اور فرانس سے ہنر مند افراد کی ہجرت سے دونوں ممالک ترقی کرنے کے بجاۓ تباہی کی طرف  بڑھنے لگے تھے بلکل اسی طرح آج ہمارے ملک سے بھی ڈاکٹر، انجنیئر، تاجر طبقے اور ہنر مند لوگوں کی ہجرت سے ہم ترقی کے بجاۓ تباہی و بربادی کی جانب گامزن ہیں.

اسپین میں مسلمانوں کی عیسائیوں کے ہاتھوں سکشت کے بعد جب ان لوگوں نے مسلمانوں اور یہودیوں کے خلاف تحریک چلائی تو اسپین میں مقیم کثیر تعداد میں مسلمانوں اور یہودیوں کو ہجرت کرنی پر جس کا نتیجہ یہ نکلا کے اسپین ہزاروں دستکاروں، ہنر مندوں اور تاجروں سے محروم ہو گیا. 1462 میں انکوئیزیژن کے محکمے کو حرکت میں لایا گیا جس کے زریعے مسلمان، یہودی اور دیگر غیرعیسائیوں پر نظر رکھی جاتی تھی اور انھیں زبردستی عیسائی بنایا جاتا تھا یا قتل کر دیا جاتا تھا.

یورپ نے فرقہ واریت کے خاتمے کو ہی ترقی کا زینہ جانتے ہوۓ ایسے قوانین بناۓ جن میں ہر فرقے ہر مذہب کو مساوی حقوق حاصل ہوۓ. جس کی شروعات 1598 میں فرانس سے ہوئی جس نے کچھ قوانین  (Edicts of Nante) بناۓ جس کے تحت فرانس میں پروٹسٹنٹوں کو مذہبی آزادی دی گئی، شہری حقوق میں مساویانہ برتاؤ کیا گیا. اس کے بعد آہستہ آہستہ قوانین بنتے گئے اور فرقہ وارانہ اور مذہبی فسادات تھم گئے.

پاکستان میں بھی اگر معیشیت کو مضبوط کرنا ہے تو سب سے پہلے فرقوارانہ، مذہبی اور لسانی فسادات کو روکنا ہو گا. یہ اس وقت ہی ممکن ہو سکے گا جب ریاست ایک فرقے کی نہیں ایک قوم کی نمائندگی کرے گی.            
______________________________________________
لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر@tanvirarain کے نام سے لکھتے ہیں۔
______________________________________________       

 

                  

Wednesday, 17 September 2014

اجتماعی سیاسی قبر

اجتماعی سیاسی قبر

تنویر آرائیں


گزشتہ تقریباً دو ہفتوں سے جاری افراتفری نے پورے ملک کو مفلوج بنایا ہوا ہے، ایک طرف انقلاب، دوسری طرف آزادی، اور تیسری طرف جمہوریت کے راگ الاپے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی گیدڑ بھپکیاں سننے میں آ رہی ہیں، تینوں گروپوں کی  جانب سے خود کو صحیح ثابت کرنے کے لیے پارلیمنٹ، تقریر، خطابات، قرآن و حدیث کا استعمال اور منت سماجت و ترلوں سے ہوتے ہوئے دعوت ناموں تک کی جدوجہد سامنے آئی۔

عملی طور پر یکم اگست سے جاری اس افراتفری کا نتیجہ ملکی معیشت، عوامی نقل و حرکت، بنیادی حقوق کے استحصال کے روپ میں نکلا ہے۔ ملکی ادارے ایک بار پھر یرغمالی کی جانب بڑھنے لگے ہیں۔ ملک کو جہاں کئی ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، وہیں عوام میں بھی اس عمل کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

میرے خیال سے پاکستان میں پارلیمانی سیاست کرنے والی جماعتوں نے اپنی قبر کھودنے کا آغاز کر لیا ہے، سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ مارشل لا کے نفاذ پر اپنی افواج کو گھسیٹنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اگر ہم پاکستان میں نافذ ہونے والی مارشل لا کی طویل تاریخ کا جائزہ لیں تو ان کا سبب سیاسی جماعتیں ہی رہی ہیں۔ کسی نا کسی نابالغ تحریک کے بعد ہی ٹرپل ون بریگیڈ درالحکومت پہنچی اور مارشل لا کا نفاذ ہوا۔

آج پھر ملک میں ایک ایسی جدوجہد جاری ہے جس کو نابالغ یا غیر پلاننگ شدہ کہہ سکتے ہیں، جس کا نتیجہ عالمی حوالے سے انتہائی افسوسناک نکلا ہے۔ ایک لحاظ سے ہم دوبارہ آگے بڑھتے بڑھتے ریورس گیئر لگا چکے ہیں۔ جبکہ ساتھ ہی ساتھ عالمی برادری کو یہ میسج پہنچ چکا ہے کہ پاکستان کی سیاست کی لگام  ابھی تک اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہے، جو کہ انتہائی افسوسناک پیغام ہے۔

ایک طرف کئی ممالک کی جانب سے اس قسم کی لا متناہی خبریں جریدوں میں جڑی جاتی ہیں کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ جمہوریت اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت کا فوج کو سیاسی معاملات میں شریک ہونے کی دعوت دینا قابل مذمت ہے۔ پاکستانی افواج کو سیاسی معاملات میں ڈال کر ایک بار پھر دشمنوں کو موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ افواج پاکستان پر اپنے وار جاری رکھیں۔

دوسری جانب افواج پاکستان کو سیاسی معاملات میں شرکت کی دعوت دینا اس بات کا ثبوت فراہم کرنا ہے کے پاکستان کی سیاسی قیادت سیاسی معاملات سے نمٹنے کی طاقت  نہیں رکھتی، ٹھیک اسی طرح جیسے انتظامی معاملات (زلزلے، سیلاب یا دیگر قدرتی آفات) میں ناکامی کی صورت میں۔ اس دعوت نامے سے جہاں عوام کی نظر میں سیاسی جماعتوں کی افادیت کو شدید دھچکا لگا ہے عین اسی طرح بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے بارے میں بھی کوئی اچھی رائے نہیں گئی اور کئی قسم کے ابہام پائے جانے لگے ہیں۔

مجھ سمیت پاکستان کا ذرا سا بھی شعور رکھنے والے لوگ اس شراکت کو کوئی مفید عمل نہیں سمجھتے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جس میں سب سے اہم وجہ یہ ہے کے پاکستان کے سیاسی مسائل کو حل کرنا حکومت و سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے اور تمام تر اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہر ادارے کو اپنے فرائض خود انجام دینے چاہییں، یہاں تو ہر ناکامی کا حل جی ایچ کیو سے نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

میاں صاحب کی انتظامی ناکامیوں کا قصیدہ تو کئی حضرات پڑھ رہے ہیں، لیکن میاں صاحب نے خود کو ناکام ثابت کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ لیکن فوج کی شراکت کی ذمہ داری صرف ن لیگ پر نہیں ڈالی جا سکتی، اس میں عمران خان صاحب اور ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اپنا برابر بلکہ کافی حصہ ڈالا ہے۔

ایک لحاظ سے فرشتے اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ پاکستانی اداروں میں گزشتہ چند سال میں جو مداخلت کم ہوئی تھی اس عمل سے اس میں پھر تیزی آئے گی، جو طاقتیں گزشتہ کچھ عرصے سے ملکی معاملات میں دخل نہیں دے پا رہی تھیں یا انہیں ان معاملات سے الگ رکھا جا رہا تھا ایک بار پھر ان طاقتوں کو یہ موقع فراہم کیا گیا ہے کے وہ اپنا اثر و رسوخ اور گرفت مضبوط کریں۔ یہاں یہ کہاوت بلکل ٹھیک بیٹھتی ہے کہ سب نے مل کے "آ بیل مجھے مار" والے کلیے پر عملدرآمد کیا ہے۔

حقیقی جمہوریت کے دعویدار اور جمہوریت کی بقا کے بلند و بانگ نعرے لگانے والوں نے ایک بار پھر ملک کو نازک ترین دور میں دھکیل دیا ہے۔ کئی دنوں سے پاکستان کی عوام میں گردش کرنے والی افواہوں (کے یہ سکرپٹیڈ ہے )کو سچ ثابت کرنے میں خان اور قادری صاحب نے کوئی کثر نہیں چھوڑی۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک فریق نے حکومت اور دوسرے فریقوں نے عزت بچانے کے لیے ملک کو بدنام کیا ہے اور رائے عامہ ہموار کرنے کے بجائے عوام کو ہر معاملے میں فوج کی جانب دیکھنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ بلکل واضح ہو چکا ہے کہ اس سارے معاملے میں جمہوری و اخلاقی روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دونوں فریقوں نے ملک کی عزت و وقار کے بجائے اپنی انا کو بچانے کی کوشش کی ہے۔

پاکستانی سیاسی جماعتیں انا کی جنگ لڑتے لڑتے ملک و قوم کا ستیاناس کرنے پر تلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مجھے تو یہ لگتا ہے جس طرح ان لوگوں نے اپنی انا کی خاطر جمہوری روایات و سیاسی حکمت عملی کی دھجیاں بکھیری ہیں اسی طرح یہ لوگ اپنی بقا کے لیے ملک کی بقا کو بھی خطرے میں ڈالتے ہوۓ ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ جمہوریت کے چیمپئن جمہوریت کو ایک لمحے تک گرم ہوا سے محفوظ نہیں رکھ سکے اور ہاتھ کھڑے کر دیے۔

اب یہ حقیقت کوئی راز نہیں رہی کہ پاکستان کے سیاستدان جمہوریت، مینڈیٹ اور عوام کی حکمرانی کا گن اپنی کرسیاں بچانے کے لیے ہی گاتے رہتے ہیں۔ کاش! کہ ہمیں اب یہ سننے کو نہ ملے کہ عوام اور ملک کے وسیح تر مفاد میں آرمی سے رجوع کیا گیا۔ دوسری جانب سے یہ کہ افواج پاکستان کی یقین دہانی پر ہم وزیر اعظم کا استعفیٰ لیے بغیر واپس لوٹ رہے ہیں۔
اب جب کہ پاکستان کے عسکری ادارے کو ان معاملات میں جھونک دیا گیا ہے تو پاکستانی سیاسی جماعتیں اسی طرح اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوے اپنی ناکامی کو تسلیم کریں اور جمہوریت کا راگ الاپنا بند کریں۔ اپنی عوام جن کو وہ اپنا سمجھتے تو نہیں ان سے معذرت کرتے ہوئے یہ فرما دیں کہ مملکت خداداد جمہوریت کی متحمل نہیں۔  

لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے  ہیں۔
twitter: @tanvirarain
    

یہ بلاگ 29 اگست 2014 کو ڈان اردو پر شایع ہو چکا ہے .

Thursday, 21 August 2014

انقلاب کا ترپ پتّہ

انقلاب کا ترپ پتّہ  

تنویر آرائیں


چلو جی اب ہم گاندھی کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں، اب کوئی بھی ٹیکس نہیں دے گا، بجلی اور گیس کے بل بھی نہیں دیں گے، ریاست کی "رام نام ستے ہے"، عمران خان صاحب نے اعلان کر دیا سو کر دیا، اور ہاں 48 گھنٹے ہیں میاں صاحب کے پاس استعفیٰ نہ دیا تو وزارت عظمیٰ کا بھی "انتم سنسکار".

خان صاحب تو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش میں لگ رہے ہیں، کیوں کہ سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان تو کبھی بانی پاکستان نے بھی نہیں کیا تھا، حالانکہ اس وقت تو ماحول اور صورتحال انتہائی گھمبھیر تھی.

1977 میں سول نافرمانی تجویز پیر پگارا، مولانا مفتی محمود، ولی خان، میاں طفیل محمّد، پروفسرغفور، نواب خیر بخش مری، سمیت دیگر کئی اہم سیاستدانوں کے سامنے اس وقت رکھی گئی تھی جب تقریباً 1200 لوگ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، پورا ملک جام پڑا تھا اور کئی شہروں میں مارشل لا نافذ تھا، اس وقت انہوں نے کہا تھا کے یہ ریاست سے بغاوت ہو گی، ریاست کا کوئی قصور نہیں ہے.

سول نافرمانی کی تحریک عموماً کولونیل طاقتوں یا مارشل لا حکومتوں کے خلاف چلائی جاتی ہے، جس کی دو مثالیں موجود ہیں، مہاتما گاندھی نے یہ تحریک برطانوی قبضے سے آزادی کے لئے چلائی تھی. جبکے 1919 کے مصر کے انقلاب میں بھی یہ تحریک برطانوی قبضے کے خلاف چلائی گئی تھی.

خان صاحب فرما رہے ہیں کہ بجلی اور گیس کے بل ادا نہیں کریں گے اور نہ ہی ٹیکس دیں گے، حضور والا پاکستان قوم پہلے ہی آپ کی تجویز پر عمل پیرا ہے.

تنخواہ دار بھی ٹیکس دینا نہیں چاہتے مگر بینک خود ہی ان کی تنخواہوں سے ٹیکس کاٹ لیتا ہے، ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی میں سے 1 فیصد سے بھی کم لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں.


ایک بین الاقوامی صحافی کا پاکستان میں ٹیکس کے حوالے سے ٹویٹ حاضر خدمت ہے:
https://twitter.com/khoureld/status/501051405105246208

خان صاحب فرما رہے ہیں کے یہ اسمبلی جعلی ہے تو ذرا سی جرات اور کریں اور کہہ دیں کہ اسی اسمبلی میں آپ کے جو ممبر حضرات ہیں وہ بھی جعلی ہیں، کیوں کہ ایسا تو نہیں چلے گا نا  کہ ن لیگ یا دیگر پارٹیوں کے ممبر جعلی جب کے اسی انتخابات کے زریعے سے آنے والے آپ کے اصلی!

پاکستان میں یہ دھاندلی دھاندلی والا کھیل خان صاحب نے ہی متعارف نہیں کروایا، یہ تو تقریباً اس ملک کے قیام سے ہی چلا آ رہا ہے، جو بھی ہارتا ہے وہ دھاندلی کا رونا رونے بیٹھ جاتا ہے. کسی کو دھاندلی کا رونا رونا چاہیے تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی ہونی چاہیے کیوں کہ خان صاحب جن سے مذاکرات کے لئے حکومت کے پیچھے پڑے ہوۓ تھے انہوں نے ان تین پارٹیوں کو انتخابی مہم ہی نہیں چلانے دی تھی.

پاکستان کے ساتھ اس وقت "بزکشی" کا کھیل جاری ہے (بزکشی کھیل پولو سے ملتا جلتا ہے، جس میں وحشیانہ حرکتوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے. اس کھیل میں گھڑ سوار کسی بچھڑے یہ بکرے کے دھڑ کو ایک دوسرے سے چھیننے کا مقابلہ کرتے ہیں، اس کھیل کے اصولوں کے مطابق کبھی اس دھڑ کو گھسیٹا جاتا تھا کبھی اٹھایا جاتا تھا) آج ریاست پاکستان اور اس کے سپریم ادارے وہ دھڑ بنے ہوۓ ہیں جس کو کبھی قادری صاحب چھینے کی کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے تو کبھی خان صاحب.

اس وقت جب خیبر پختونخواہ میں تقریباً دس لاکھ متاثرین بیٹھے ہوۓ ہیں اور بارش نے بھی کافی تباہی پھیلائی ہے تحریک انصاف کے وزیر اعلی اسلام آباد میں انٹرٹینمنٹ فرما رہے ہیں اور صوبے کی عوام کو بے یار و مددگار چھوڑا ہوا ہے کیا یہ نیا پاکستان ہے؟ یا ان کو سنبھالنے کے ڈر سے اسلام آباد آ بیٹھے ہیں؟

خان صاحب کا سارا زور مرکزی حکومت کو گھرانے پر ہے، اس کا مقصد کے صرف جن نشستوں سے ن لیگ جیتی ہے وہیں دھاندلی ہوئی ہے، جہاں کوئی اور جیتا وہاں سب فرشتے بیٹھے ہوۓ تھے، وہاں الیکشن کمیشن کا عملہ عمامہ پہنے ہاتھ میں تسبیح پکڑے بیٹھا تھا.

رہی بات جمہوریت کی تو اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ خان صاحب فرماتے ہیں 12 گھنٹے میں سوچتا رہا اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا جاۓ.

مطلب یہ فیصلہ خان صاحب کا اپنا ہے اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کا اس سے کوئی تعلق نہیں، جبکہ خان صاحب نے ان سے مشوره کرنا بھی گوارا نہیں سمجھا. ویسے تو خان صاحب کور کمیٹی کی بہت بات کرتے ہیں، اب کور کمیٹی کہاں گئی؟

خان صاحب فرماتے ہیں کے یہ لوگ الیکشن کمیشن خرید لیتے ہیں، شاید صاحب کو ڈر ہے کہ آئندہ انتخابات میں یہ ان سیٹوں سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں، شاید ایک لاکھ موٹر سائیکل کا دعویٰ خاک میں مل جانے کے بعد خان صاحب کچھ سنجیدہ ہو گئے ہیں، لیکن یہ میری غلط فہمی ہی ہو سکتی ہے، کیوں کہ خان صاحب کا 48 گھنٹوں بعد اسمبلی میں گھسنے والی دھمکی نے سارا پول کھول کے رکھ دیا ہے.

اگر اسمبلی یا وزیراعظم ہاؤس میں چند ہزار کارکنان گھسا کر ہی حکومت میں آنا ہے تو پھر ملک میں انتخابات کروانے کا کیا فائدہ آج آپ چند ہزار لوگ پارلیمنٹ ہاؤس میں گھسا کر وزیر اعظم بنے کل کوئی اور یہی عمل دوہراے گا اگلے دن کوئی اور کھڑا ہو جاۓ گا. پھر تو ملک میں انتخابات کے بجاۓ دھرنوں سے حکومتیں منتخب کی جائیں گی. واجپائی نے بھی کیا خوب جملہ کہا تھا کہ اتنی تو میں اپنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیر اعظم بدلتے ہیں.

پاکستانی عوام گزشتہ سال یہ امید لگا بیٹھی تھی کے ملک میں جمہوریت مستحکم ہو رہی ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار اقتدار کی منتقلی آئین و قانون کے مطابق ہوئی ہے، جبکہ چھینا جھپٹی کلچر کا خاتمہ ہوا ہے، ان کو امید تھی کہ اب ملک میں کچھ بہتری آئے گی اور عوامی منصوبات پر کچھ کام ہو پاۓ گا.

لیکن ابھی تو صرف ایک سال ہی گزرا کے ماضی کی طرح ٹانگ کھینچنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، ملک میں ایک بار پھر عدم برداشت، ہوس اقتدار اور غیر جمہوری جن بے قابو ہو گیا ہے. لیکن اس دفعہ اگر یہ جن اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو گیا تو میرے خیال سے ملک سے جمہوریت اب ایسا روٹھے گی کے منانے کے لئے اس بار پاپڑ بیلنے سے بھی کام نہیں چلے گا.

خان صاحب کو عام آدمی پارٹی سے سبق سیکھنا چاہیے، وہ بھی لوکل گورنمنٹ میں کامیابی حاصل کر کے مرکز کا خواب دیکھ رہی تھی اور اسی چکر میں استفیٰ دے کر گھر کو چلی گئے تھی، پھر اس کا حشر کیا ہوا سب جانتے ہیں. سندھی زبان میں ایک بڑی مشہور کہاوت ہے کہ؛

"سجی جے چکر میں ادھ بھی ونجاۓ ویھندے" (پوری کے چکر میں آدھی بھی گنوا بیٹھو گے).

دوسری طرف حکومت بھی ستو پئے نظر آتی ہے، ملک میں ایک مہینے سے جاری افراتفری سے نمٹنے کے لئے کوئی بھی حکمت عملی نظر نہیں آ رہی، ملکی ادارے مفلوج نظر آ رہے ہیں عوام حالت کسمپرسی میں مبتلا ہے، ملکی سرگرمیاں مفلوج ہو چکی ہیں اور کاروبار کو گھن لگ رہا ہے، اسحٰق ڈار کے بقول ان احتجاجوں کے باعث ملک کو 450 بلین کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا. مگر میاں صاحب بھولے بھیا بنے عوام سے پوچھ رہے ہیں کہ بھئی میرا کیا قصور؟

کم سے کم اتنا تو کر سکتے ہیں کے پارلیمنٹ کا جوائنٹ اجلاس بلا کے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیں، اور ایک آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ان صاحبان سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی وضع کریں.

یہ بلاگ ڈان اردو پر 19 اگست  2014 کو شایع ہو چکا ہے.